کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 110
رشید مولانا حبیب اﷲ ڈیروی صاحب بھی اس حقیقت کے معترف ہیں کہ: ’’ یہ شعر ہدایہ اخیرین کے مقدمہ صفحہ ۳ میں اسی طرح موجود ہے جس طرح مؤلف نتائج التقلید نے پیش کیا ہے۔‘‘ (ہدایہ علماء کی عدالت میں ص ۷۷) بلکہ ہم عرض کر آئے ہیں کہ یہ شعر انہی الفاظ سے مولانا محمد حنیف گنگوہی فاضل دیوبند نے ظفر المحصلین باحوال المصنفین (ص ۱۹۴) میں بھی ’’فی الشرع من کتب ‘‘ کے الفاظ سے نقل کیا اور فرمایا کہ یہ ’’مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت کا اظہار ہے۔‘‘نیز یہ شعر اسی طرح ’’فی الشرع من کتب‘‘ کے الفاظ کے ساتھ حاجی خلیفہ نے کشف الظنون (ص ۲۰۳۲ ج ۲) میں بھی ذکر کیا ہے۔ مولانا صفدر صاحب نے جو یہ فرمایا کہ ’’ متعدد کتابوں میں ’’ فی الفقہ‘‘ کا لفظ ہی دیکھاہے۔ہمیں بتلایا جائے کہ وہ ’’متعدد‘‘ کتابیں کون کون سی ہیں ؟ یہ بھی دراصل انھوں نے اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے اور اپنے ناخواندہ حواریوں کو مطمئن کرنے کے لیے لکھ دیا ورنہ بتلایا جائے کہ وہ کتابوں کا نام نہ لینے میں کس مصلحت کا شکار ہیں ؟ شاگرد رشید نے بھی حق شاگردی ادا کرتے ہوئے لکھ دیا کہ ’’ اصل الفاظ فی الفقہ تھے‘‘ (ہدایہ علماء کی عدالت میں ص ۷۸) مگر اس اصل کا حوالہ نہ استاد کے پاس ہے نہ شاگرد کے پاس۔’’ فی الفقہ‘‘ کے الفاظ ہوتے تو شاید اعتراض کی چنداں ضرورت نہ ہوتی مگر جب ’’ فی الشرع‘‘ کے الفاظ ہیں تو بتلایا جائے کتب شرح کون کون سی ہیں ؟ پھر صرف حنفی مسائل پر مشتمل کتب ہی کتب شرع ہیں ؟ یہ تسلیم کیا کہ تشبیہ من کل الوجہ نہیں ہوتی۔مگر اس قسم کے غلو کی آخر ضرورت ہی کیا ہے کہ اسے کالقرآن کہہ کر باقی کتب شرع کو منسوخ قرار دیا جائے،بات یہی نہیں۔اس کے بعد اگلاشعر یہ ہے: فاحفظ قراء تھا والزم تلاوتھا یسلم مقالک من زیغ و من کذب ’’ کہ اس کتاب کو پڑھتے رہو اور اس کی تلاوت لازم کر لو۔اسی سے تمھاری گفتگو کجی اور غلطیوں سے پاک ہو جائے گی۔‘‘سبحان اﷲ!گویا مسائل میں غلطیوں سے پاک رہنے کا یہ نسخہ شافی و کافی ہے۔مگر مسائل سے ہٹ کر جن روایات سے اس میں استدلال کیا گیا ہے ان کی پوزیشن آپ کے سامنے ہے۔حدیث ذکر کرنے میں ان کے اسلوب کی