کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 11
سے نہیں اور نہ ہی وہ حدیث کی سند محدثین تک پہنچاتے ہیں۔‘‘ شیخ ابوغدہ حنفی علامہ ملاعلی قاری کے اس فیصلے کی تحسین کرتے ہوئے حاشیہ میں لکھتے ہیں : ’’ أحسنت أحسنت جزاک االلّٰہ خیرا عن حدیث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ (حاشیۃ المصنوع ص ۱۵۷) ’’ آپ نے بہت اچھا کیا،حدیث کے اس دفاع کی اﷲ تعالیٰ آپ کو جزا عطا فرمائے۔‘‘ مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے شرح الوقایہ کے مقدمہ میں بھی علامہ علی قاری رحمہ اللہ کی یہ عبارت نقل کی ہے اور پھر مزید اس کی تائید میں لکھا ہے: ’’ و ھذا الکلام من القاری أفاد فائدۃ حسنۃ و ھي أن الکتب الفقھیۃ و إن کانت معتبرۃ في أنفسھا بحسب المسائل الفرعیۃ وکان مصنفوھا أیضاً من المعتبرین والفقہاء الکاملین،لا یعتمد علی الاحادیث المنقولۃ فیھا اعتماداً کلیاً ولا یُجزم بورودھا و ثبوتھا قطعا بمجرد وقوعھا فیھا فکم من أحادیث ذکرت في الکتب المعتبرۃ و ھی موضوعۃ و مختلفۃ‘‘۔۔الخ (مقدمہ عمدۃ الرعایۃ في حل شرح الوقایۃ ص ۱۲،۱۳) [1]
[1] (الفوائد البیھۃ:ص ۶۲) علامہ علی قاری رحمہ اللہ نے جس حدیث کے ضمن میں یہ بات کہی ہے اسے صاحب نہایہ نے ذکر کیا ہے جو ’’قضاء عمری‘‘ کے متعلق ہے۔احناف کی بریلوی شاخ کا اس پر عمل بھی ہے۔علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے اس کی تردید میں ایک مستقل رسالہ ’’ردع الإخوان عن محدثات آخر جمعۃ رمضان‘‘ لکھا ہے۔صاحب النہایہ نے ایک حدیث یہ بھی نقل کی ہے کہ ’’جو امام کے پیچھے پڑھے اس کے منہ میں آگ کا انگارا دیا جائے،،علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ علی قاری رحمہ اللہ کی مذکورۃ الصدر عبارت کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی تائید کی ہے اور کہا ہے:’’ کہ صاحب نہایہ اور دیگر شارحین ہدایہ کی نقل حدیث کا اعتبار نہیں کیوں کہ ان کا شمار محدثین میں نہیں ہوتا‘‘ (امام الکلام ص ۱۸۳ مطبوعہ احیاء السنۃ گوجرانوالہ)۔