کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 108
کامیاب ہو گئے اور وہ ان کی تعظیم اور تعریف یوں کرتے تھے جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کی تعظیم کرتے تھے‘‘ تو کیا یہ کہا جائے گا کہ محدث ابوشامہ رحمہ اللہ نے حافظ شاطبی رحمہ اللہ کو نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کے مقام پر پہنچا دیا ہے۔‘‘ (بینات ص ۳۰) شُکْرًا لِلّٰہِ کہ مولانا صاحب نے اسے شاعرانہ تخیل قرار دیا لیکن جلدی نہ کیجیے حقیقت اپنی جگہ حقیقت رہتی ہے اور ہر دور میں حنفی اکابر اسے مبنی بر حقیقت ہی قرار دیتے آئے ہیں۔اور ہدایہ کی منقبت میں اسے جلی حروف میں لکھتے ہیں : ’’ظفر المُحصّلین باحوال المصنِّفین ‘‘(جس کا حوالہ خود مولانا سردار احمد نے بھی دیا ہے) کے مصنف مولانا محمد حنیف صاحب گنگوہی فاضل دیوبند لکھتے ہیں : ’’کسی شاعر کا اس قطعہ پر مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت کا اظہار ہے۔‘‘ (ظفر المحصلین ص ۱۹۴۔۱۹۵) لہٰذا آج مولانا سردار احمد صاحب کا یہ معذرت خواہانہ موقف محض دفع الوقتی پر محمول ہے۔عموماً علمائے احناف کے ہاں اس شعر میں ’’حقیقت کا اظہار‘‘ ہے شاعرانہ تصور اور مبالغہ نہیں۔ ہدایہ کی تعریف میں مذکورۃ الصدر شعر میں جس غلو کامظاہرہ کیا گیا ہے اس کے جواب میں حافظ ابوشامہ رحمہ اللہ کے جس شعر سے دفاع کیا گیا ہے وہ بھی قطعاً صحیح نہیں جب کہ علامہ ابوشامہ رحمہ اللہ کے کلام میں معاذاﷲ ثم معاذاﷲ !محدث شاطبی کو کَالنَّبِیِّ نہیں کہا گیا۔لیکن ہدایہ کے بارے میں تو صاف صاف ’’ کالقرآن‘‘ کہا گیا ہے،بلکہ یہ بھی جس طرح قرآن پاک سے سابقہ شرائع منسوخ ہو گئی ہیں اس طرح ’’شرع‘‘ کی جو کتابیں ہیں وہ ہدایہ سے منسوخ ہو گئی ہیں (جل جلالہ )۔گویا اب ان کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔مسائل کو سمجھنے سمجھانے میں بس یہی کافی و شافی ہے جب کہ حنفی دوست فقہ حنفیہ کو کتاب و سنت کا نچوڑ اور مغز قرار دیتے ہیں۔تو پھر ہدایہ کے متعلق یہ شعر مبنی بر حقیقت کیوں نہیں ؟ جب کہ ضرورت نچوڑ اور مغز کی ہوتی ہے چھلکے کی نہیں۔خود مولانا سردار احمد صاحب نے نقل کیا ہے کہ علامہ کاشمیری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ: