کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 105
ہے اور وہ بغدادی ہے۔اسی بنا پر بطاہر معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ابوقلابہ سے بغداد ہی میں یہ روایت سنی ہے۔لہٰذا اس روایت کو صحیح کیوں کر کہا جا سکتا ہے۔الا یہ کہ یہ ثابت کیا جائے کہ عثمان دقاق رحمہ اللہ نے ان سے اختلاط سے پہلے سماع کیا ہے مگر یہ قطعاً ثابت نہیں۔ عبدالملک یہ روایت اپنے باپ محمد بن عبداﷲ نا حرب بن ابی العالیۃ عن ابی الزبیر عن جابر کی سند سے بیان کرتے ہیں جب کہ اس کے برعکس اسحاق بن زیادہ الابلی اور علی بن عبدالعزیز دونوں محمد بن عبدﷲ سے اسی سند کے ساتھ یہ الفاظ بیان کرتے ہیں :’’ لیس للحامل المتوفی عنھا زوجھا نفۃ‘‘(دارقطنی ص ۲۱،۲۲ ج ۴)اورابوالزبیر سے ابن جریج اسے موقوف بیان کرتے ہیں۔(بیہقی ص ۴۳۰ ج ۷) اس لیے عین ممکن ہے عبدالملک الرقاشی سے اس روایت میں خطا ہوئی ہو کہ اس کا تعلق دراصل متوفی کے نفقہ سے تھا مگر عبدالملک کے تغیر حفظ کی بنا پر مطلقہ کے سکنی و نفقہ کے متعلق ہو گیا ہو۔و اللّٰہ اعلم۔ ثانیاً: اس میں ابوالزبیر محمد بن مسلم مدلس ہے اور اس کی یہ روایت معنعن ہے،تقریباً دو درجن کے قریب ائمہ فن نے اسے مدلس قرار دیا ہے جس کی بالتفصیل بحث ہم نے ’’توضیح الکلام فی وجوب القراء ۃ خلف الامام ‘‘ کے حصہ ثانی ص ۵۵۸ میں کی ہے۔اس حدیث پر بحث کے دوران حافظ عبدالحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ انما یؤخذ من حدیث ابی الزبیر عن جابر ما ذکر فیہ السماع او کان عن اللیث عن ابی الزبیر‘‘ (نصب الرایہ ص ۲۷۴ ج ۳) ’’ابو الزبیر کی جابر رضی اللہ عنہ سے وہی حدیث لی جائے گی جس میں سماع کا ذکر ہو یا امام لیث نے ابوالزبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہو۔‘‘ لہٰذاابوالزبیر کی تدلیس کی بنا پر بھی یہ حدیث ضعیف ہے۔ ثالثاً: اس سند میں حرب بن ابی العالیہ بھی متکلم فیہ ہے۔امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انھیں ثقات میں ذکر کیا ہے مگر امام عقیلی رحمہ اللہ نے ’’الضعفاء ‘‘میں کہا ہے۔ ’’ضعفہ احمد‘‘کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔‘‘