کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 103
ترجمہ ہمیں نہیں ملا،اور حماد کا استاد خلف بن یٰسین بن معاذ بن زیاد مجہول ہے۔حافظ ابن حجر وغیرہ نے اس کے ترجمہ میں ایک موضوع روایت کا بھی ذکر کیا ہے۔(لسان المیزان ص ۴۰۵ ج ۲،کامل ص ۹۳۴ ج ۳،عقیلی ص ۲۳ ج ۲) خلاصہ کلام یہ کہ حماد کے واسطہ سے یہ روایت ضعیف اور مضطرب ہے۔روایت میں أصدقت أم کذبت کے الفاظ کذاب اور وضاع راویوں سے مروی ہیں اور صاحب ہدایہ نے جو الفاظ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نقل کیے ہیں وہ قطعاً ثابت نہیں۔امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی ان کا انکار کیا ہے۔ رہی حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ کی روایت،تو اولاً وہ موضوع بحث ہی نہیں جب کہ مصنف ’’حقیقۃ الوحی‘‘ مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ نے جو کچھ نقل کیا ہے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت کے متعلق ہے۔آپ زیادہ سے زیادہ اسے شاہد کہہ سکتے ہیں۔اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔ایک ہی باب میں مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت منقول ہوتی ہے،جن میں بعض کی صحیح اور بعض کی ضعیف بلکہ موضوع بھی ہوتی ہے۔دور نہ جائیے من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار‘‘ جیسی متواتر حدیث کو ہی دیکھ لیجیے جو متعدد صحیح اسانید سے مروی ہے اور ضعیف بلکہ متروک اور کذاب راویوں سے بھی،جس کی تفصیل علامہ ابن الجوزی کے ’’مقدمۃ الموضوعات ‘‘ اور’’ مجمع الزوائد‘‘ (ص ۱۴۲ ج ۱) میں دیکھی جا سکتی ہے۔تو کیا ان احادیث کی بنا پر اس باب میں کذاب اور متروک راویوں کی احادیث کو بھی صحیح قرار دیا جائے گا؟ ہر گز نہیں۔مولانا سردار صاحب زیر بحث مسئلہ کو بھی اسی نقطہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کرکے یہ کہنے کی جرأت نہ کرتے کہ یہ صاحب ِہدایہ کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر افتراء نہیں بلکہ مؤلف ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ یا صاحب تنقید الہدایہ کا صاحب ہدایہ پر افتراء ہے‘‘ (بینات ص ۲۸) جب تنقید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اسی مرفوع روایت پر ہے جسے صاحب ہدایہ نے پیش کی ہے،جسے مولانا جے پوری یا صاحب تنقید الہدایہ ہی نے بے اصل اور موضوع نہیں کہا،بلکہ امام احمد رحمہ اللہ،ابن السمعانی،ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی اسے بے اصل اور منکر قرار دیا ہے،لہٰذا ان متاخرین حضرات پر بھی حضرت موصوف کی برہمی محض حقیقت سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔