کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 101
گویا یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول و فتویٰ ہے۔آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کا فرمان نہیں۔جیساکہ صاحب ہدایہ نے نقل کیا ہے اور وہ بھی سنداً صحیح نہیں،کیوں کہ علامہ خوارزمی رحمہ اللہ نے اسے ابومحمد عبداﷲ بن محمد بن یعقوب الحارثی کی ’’مسند ابی حنیفہ رحمہ اللّٰہ ‘‘سے نقل کیا ہے او یہی عبداﷲ الحارثی رحمہ اللہ محدثین کے ہاں سخت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف،حاکم نے صاحب عجائب و افراد،خطیب نے صاحب عجائب و مناکیر اور لیس بحجۃ کہا ہے،ابوسعید الرواس فرماتے ہیں : ’’وہ حدیثیں بنانے میں متہم ہے۔‘‘ احمدسلیمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ایک سند کو دوسرے متن اور ایک متن کو دوسری سند سے ملا دیا کرتا تھا۔اور یہ وضع حدیث کی ایک قسم ہے۔‘‘ (میزان ج ۲ ص ۹۶ ۴،لسان ج ۳ ص ۳۴۹) ابوعبداﷲ حارثی کا اس روایت میں استاد احمد بن محمد بن سعید ابن عقدہ ہے اور خود علامہ خوارزمی نے لکھا ہے: ’’مدار اکثر احادیث ھذہ المسانید علی ابی العباس احمد بن محمد بن سعید الھمدانی الکوفی ابن عقدۃ الحافظ رحمہ اللّٰہ تعالٰی (جامع المسانید ج ۲ ص ۳۹۹) ’’کہ ان مسانید میں اکثر احادیث کا دارو مدار احمد بن محمد بن سعید ابن عقدہ پر ہے۔‘‘ ابن عقدہ کا شمار بلاشبہ کوفہ کے حفاظ میں ہوتا ہے مگر اس کو بعض نے ثقہ اور بعض نے ضعیف کہا ہے،چنانچہ امام ابن عدی نے اس کی توثیق کی ہے۔امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’و ہ متہم بالوضع نہیں،اکثر مناکیر بیان کرتا ہے۔‘‘ ابوبکر بن ابی غالب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: ’’وہ کوفہ کے شیوخ کو کذب پر آمادہ کرتا تھا۔ان کے لیے کتابیں تیار کرتا