کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 78
﴿ اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہ مُخْلِصًا لَّہُ الدَّیْنَo اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ﴾ [الزمر:2…3] ’’ بیشک ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے پس اﷲکی بندگی کرو دین کو اس کیلئے خالص رکھتے ہوئے، خبردار اﷲکیلئے (قابل قبول) صرف دین خالص ہے۔‘‘ اقامتِ دین کا علم بلند کرنے والے بعض لوگ پاکستان کے آئین میں قراردادِ مقاصد کے شامل ہونے سے پہلے تک (آئین و قوانین کے طاغوتی ہونے کی بنا پر) گورنمنٹ آف پاکستان کی ملازمت کرنا، اس کی عدالتوں میں اپنے مقدمات لے جانا اور وکالت کرنا ناجائز سمجھتے تھے جو کہ ان کا ایک زبردست مؤقف تھا لیکن جونہی آئین میں قراردادِ مقاصد شامل ہو گئی انہوں نے مذکورہ سب کاموں کو جائز قرار دے دیا اور اب وہ دھڑلے سے یہ سب کام کرتے ہیں حتی کہ طاغوتی نظامِ سیاست ’’جمہورت‘‘ اختیار کرتے ہوئے اسلام کے نام پر چندسیٹیں پارلیمنٹ کی بھی حاصل کر لیتے ہیں پھر پارلیمنٹ میں جا کر ان آئین و قوانین کی پاسداری کا حلف تک اٹھا لیتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کیا قراردادِ مقاصد کے شامل ہونے کے ساتھ وہ طاغوتی قوانین ختم ہو گئے تھے جن کی وجہ سے پہلے مذکورہ بالا کام ناجائز قرار دئیے گئے تھے؟ اور کیا زبان سے یا کسی قرار داد کے ذریعے سے اﷲکو حاکم مطلق ’’محض منوا لینے سے‘‘ اور طاغوتی قوانین کو ختم کر دینے کا ’’محض وعدہ آئین میں شامل کروا لینے سے‘‘ ان طاغوتی قوانین کی اطاعت جائز ہو جاتی ہے؟ ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایسا ’’اقامتِ دین‘‘ کیلئے کرتے ہیں اور جمہوریت ، طاغوتی قوانین کے حلف اور ان کی پاسداری اگرچہ شرک ہی نظر آتے ہیں لیکن اس کے ذریعے سے ہم پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں اﷲکا کلمہ بلند کرتے ہیں پھر اس کے ذریعے ہم ایک