کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 5
انہی کے ہاتھوں سے بھی قید و قتل کروا رہے ہیں اس سے خیال خودبخود اس طرف جاتا ہے کہ کیا (معاذ اللہ) مومنین کیلئے اﷲکی مدد کے وعدے جھوٹے ہیں؟…نہیں…ایسا تو ہو نہیں سکتا…تو پھر توجہ خودبخود اس بات کی طرف مبذول ہوتی ہے کہ مددکا وعدہ تو ’’مؤمنین‘‘ کیلئے ہے اور کہیں ایسا تو نہیں کہ مومن کہلانے والے ہم لوگ اس ایمان ہی پہ پورے نہ اترتے ہوں جو اﷲکے ہاں قابل قبول ہے جس پہ اس کی مدد میسر آتی ہے اور جس مدد کے بغیر کسی کامیابی کا تصور بھی محال ہے۔
آئیں خود اﷲتعالیٰ کی ’’ وحی‘‘ سے دیکھیں کہ اس کے ہاں قابل قبول ایمان کون سا ہے جس کی بناء پر مومنین کو اﷲتعالیٰ کی مدد میسر آتی ہے اس کے بعد ہم اپنا بھی جائزہ لیں کہ اس ایمان کے حوالے سے اس وقت ہماری کیا کیفیت ہے اور کیا ہم اس کی بنیادوں اور اس کے بنیادی تقاضوں کا بھی اہتمام کر سکے ہیں کہ نہیں کہ جن کے بغیر دنیا میں کامیابی توکجا خود آخرت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے جبکہ آخرت انسان کیلئے ہدف اوّل ہے۔
آخراتنی ذلت و رسوائی کے بعد بھی ہم اپنا جائزہ کیوں نہ لیں جبکہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔
﴿ وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ﴾ [الشوری:30]
’’ اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے پہنچتی ہے اور بہت سے (قصوروں کو تو وہ) ویسے ہی معاف کر دیتا ہے
جب ہم اﷲتعالیٰ کی وحی (کتاب اﷲو سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم)میں تدبر کرتے ہیں تو وہاں ’’اﷲپر ایمان‘‘ میں ’’طاغوت سے کُفر‘‘ بنیادی چیز نظر آتی ہے اس کے بنیادی تقاضوں میں ’’امت کی وحدت‘‘ اوّلین چیز کے طور پر سامنے آتی ہے اور انہی چیزوں کا خصوصی اہتمام اﷲتعالیٰ کی مدد کا باعث بنتا ہے لیکن جب لوگوں کی موجودہ حالت کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اکثر میں