کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 48
کہلائے گا اور اس کیلئے معافی کی امید ہے(واﷲاعلم)لیکن یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ آیتِ بالا میں کفر کا ذکر ہوا ہے شرک کا نہیں جبکہ شرک کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: [لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّاِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ] [طبرانی ، معاذ رضی اللّٰه عنہ ] ’’ تم شرک نہ کرنا خواہ تم قتل کر دئیے جاؤ یا زندہ جلا دئیے جاؤ۔‘‘ حدیثِ بالا سے سمجھ میں آتا ہے کہ زور زبردستی کی حالت میں اگر شرک کا معاملہ درپیش ہو تو جان سے گزر جانا چاہئے لیکن شرک میں مبتلاء نہیں ہونا چاہئے(واﷲاعلم)۔ ج۔ طاغوت اور اس کے بندوں سے بے زاری ، عداوت اور دشمنی رکھنا مگر جنگ نہ کرنے اور بے گھر نہ کرنے والوں سے حسنِ سلوک اور انصاف کرنا: طاغوت سے کفر و اجتناب کی اس کیفیت کے حوالے سے اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔ ﴿ قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ اِنَّا بُرَئٰ ؤُامِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَائُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ ﴾۔[الممتحنہ:4] ’’ تمہارے لئے ابراہیم علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ہم تم سے اور ان سے جن کو تم اﷲکو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کیلئے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اﷲواحد پر ایمان نہ لاؤ۔‘‘ آیتِ بالا سے طاغوت اور اس کے عبادت گزروں سے بے زاری، عداوت اور دشمنی رکھنے کا عمومی حکم سامنے آتا ہے مگر اسی سورہ میں اس آیت سے تھوڑا آگے چل کر یہ تخصیص بھی سامنے آتی ہے کہ طواغیت اور ان کے بندوں میں سے جن لوگوں نے اہل ایمان سے دین کے معاملے