کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 38
وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلاً م بَعِیْدًا o وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا﴾ ’’ چاہتے یہ ہیں کہ فیصلہ کروانے کیلئے طاغوت کے پاس جائیں حالانکہ انہیں اس سے کفر کا حکم دیا گیا ہے، شیطان انہیں راہِ راست سے بھٹکا کر دور کی گمراہی میں لے جانا چاہتا ہے اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اﷲنے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو آپ ان منافقین کو دیکھتے ہیں کہ یہ آپ کی طرف آنے سے اپنے آپ کو سختی سے روکتے ہیں۔‘‘ (النساء:60…61)۔ اوپر پہلی آیت سے بھی صاف واضح ہوتا ہے کہ طاغوت سے کفر کرنے والا اس کی کسی بھی زورزبردستی سے محفوظ اور اس سے کفر کرنے کیلئے آزاد ہے۔ دوسری آیت میں ’’یریدون‘‘ (چاہتے یہ ہیں) کے الفاظ سے بھی صاف واضح ہو رہا ہے کہ جانے والا طاغوت کے پاس اپنی آزادانہ مرضی سے جا رہا ہے ، طاغوت زور زبردستی نہیں کر رہا ہے۔ عدالتی فیصلہ ہو یا کوئی فلسفہ ، نظریہ، طریقہ، فتویٰ، حکم، قانون اور نظام زندگی وغیرہ یہ سب کسی فیصلے پر پہنچنے کے بعد ہی جاری کئے جاتے ہیں پھر فیصلہ کرنے والے کیلئے ضروری نہیں کہ وہ لازماً اقتدار کا مالک ہو یوں ہر وہ شخص طاغوت قرار پاتا ہے جو اﷲکی وحی کی بجائے اھواء کے مطابق فیصلہ کرے اور اس کی بنا پر حکم، قانون، عدالتی فیصلہ، فتویٰ، فلسفہ، نظریہ، طریقہ و نظام زندگی وغیرہ جاری کرے خواہ وہ والدین میں سے کوئی ہو یا قبیلے کا سردار ہو، ملک کا حکمران ہو یا کوئی قانون ساز و قاضی ہو، پارتی کا سربراہ ہو یا علاقے کا سرپینچ ہو، عالم و مفتی ہو یا کوئی پیرودرویش ہو یا کوئی بھی اور شخص ہو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ والدین طاغوت نہیں ہو سکتے!یقینا تمام والدین اپنے بچوں کیلئے