کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 36
ایسا نہیں ہے اور اگر سرکشی کی بنا صرف اقتدار ہی ہوتا تو پھر کسی مغلوب کو سرکشی سے منع کرنے کی ضرورت نہیں رہنی چاہئے تھی جبکہ ایسا بھی نہیں ہے ، اﷲتعالیٰ اہل ایمان کو ان کی مکے کی مغلوبیت کی حالت میں ارشاد فرماتا ہے کہ:۔ ﴿ فاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتُ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ ’’ پس تم ثابت قدم رہو جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی جو تائب ہو کر تمہارے ساتھ ہیں اور سرکشی نہ کرنا، بیشک وہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے’‘ (ھود:112) آیاتِ بالا سے سرکشی کی بنا معلوم ہوتی ہے لیکن خود سرکشی کیا اس کی وضاحت پہلے بھی ہو چکی ہے یعنی ’’اﷲکی نازل کردہ وحی کے بغیر محض اھواء سے فیصلے کرنا’‘ اس حوالے سے اﷲتعالیٰ کے مزید ارشادات ہیں کہ: ﴿ فاَمَّا مَنْ طَغٰی o وَاٰثَرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا o فَاَنَّ الْجَحِیْمَ ھِیَ الْمَاْوٰیo وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی o لَا فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی﴾ [النزعت:37…41] ’’ پس جس نے سرکشی کی اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانہ ہے لیکن جو کوئی اپنے رب کے حضور پیشی سے ڈرا اور اپنے نفس کو اھواء کی پیروی سے روکا تو بیشک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے۔‘‘ ﴿ وَاِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضْلُّوْنَ بِاَھْوَآئِ ھِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ﴾ (الانعام:119)