کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 35
’’ حقیقت یہ ہے کہ اﷲکی وحی کے مطابق یا اس کے بغیر فیصلے کر سکنے کی ’’بنا’‘ اقتدار نہیں کچھ اور ہے۔‘‘ (بخاری، باب احادیث الانبیائ، ابی ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ آیتِ بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲکی وحی کے مطابق فیصلے کرنے کی ’’بنا‘‘ اﷲکا خوف اور لوگوں سے بے خوفی ہے۔ انبیاء میں سے بیشتر کو اقتدار تو حاصل نہیں تھا مگر یہ چیزیں حاصل تھیں جس کی بنا پر وہ لوگوں کا ذرا سا خوف رکھے بغیر اﷲکی وحی کے مطابق فیصلہ کیا کرتے تھے، اس کے برعکس سرکشی (طغٰی) کی ’’بنا‘‘ اﷲکے ہاں پیشی کے خوف سے بے نیازی ہے نہ کہ اقتدار جیسا کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ﴿ کَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰی o لَا اَنْ رَّاہُ اسْتَغْنٰی o اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی﴾ ’’ خبردار!انسان ضرور سرکش ہو جاتا ہے، اس بنا پر کہ اپنے آپ کو بے نیاز پاتا ہے حالانکہ اسے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ (العلق:6…7)۔ چونکہ انسان اپنے رب کے ہاں پیشی سے بے خوف ہونے کی بنا پر سرکش ہوتا ہے اس لئے جب اسے سرکشی سے منع کرنا ہوتا ہے تو ا س کے اندر اﷲکا خوف ہی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسا کہ فرعون کے حوالے سے اﷲتعالیٰ موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیتا ہے کہ:۔ ﴿ اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی o زصلے فَقُلْ ھَلْ لَّکَ اِلٰی اَنْ تَزَکّٰی o لَا وَاَھْدِیَکَ اِلٰی رَبِّکَ فَتَخْشٰی﴾ [النزعت:17…19] ﴿ فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو گیا ہے اور کہو کیا تجھے کچھ رغبت ہے اس بات کی کہ خود کو پاک کرے اور رہنمائی کروں میں تیری تیرے رب کی طرف کہ تیرے اندر اس کا خوف پیدا ہو۔‘‘ اگر سرکشی کی بنا اقتدار ہوتا تو ہر مقتدر ہوتا تو ہر مقتدر کو سرکش ہونا چاہئے تھا جبکہ خود قرآن گواہ ہے کہ