کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 33
بجائے کسی اور بات کی اتباع میں (کے مطابق) فیصلے کرے اور یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اﷲکی وحی کو چھوڑ کے واجب الاتباع بنائی جانے والی مخلوق کی باتیں (فلسفے، نظرئیے ، طریقے، فتوے، احکامات، قوانین و نظام ہائے زندگی وغیرہ) ’’اھوائ‘‘ کہلاتی ہیں۔ فیصلے کے حوالے سے لوگوں کا ذہن عام طور پر فریقین کے مابین ہونے والے عدالتی قسم کے فیصلوں ہی کی طرف جاتا ہے لیکن کتاب و سنت میں عدالتی کیفیت کی بجائے عمومی کیفیت میں اختیار کئے گئے فیصلے کو بھی فیصلہ ہی کہا گیا ہے جیسا کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔ ﴿ أَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِينَ O مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴾ ’’ کیا اس نے منتخب کیا ہے بیٹیوں کو بیٹوں پر؟ کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ کیسے فیصلے کرتے ہو؟۔‘‘ (الصفٰت:153…154) آیتِ بالا سے جہاں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فیصلے سے صرف عدالتی فیصلہ ہی مراد نہیں ہے وہیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کسی فلسفے ، نظرئیے (مثلاً اﷲکی بیٹیاں ہیں) وغیرہ کو جس فکر کی بنا پر اختیار کیا جاتا ہے اسے بھی فیصلہ کہا گیا ہے۔ بعض لوگ فیصلہ کرنے والے کیلئے اقتدار و قوت کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں جس سے وہ فیصلے کو نافذ کر سکے اس بناء پر وہ طاغوت اسے ہی مانتے ہیں جو اقتدار وقوت رکھتا ہو اور اپنے ’’بغیر وحی‘‘ فیصلے نافذ بھی کرتا ہو اسی طرح ان کے نزدیک اہل ایمان کے مابین اﷲکی وحی کے مطابق فیصلے کرنے والا بھی وہی ہو سکتا ہے جو قوت و اقتدار کا مالک ہو اور اپنے ’’بمطابق وحی‘‘ فیصلے نافذ بھی کرتا ہو جبکہ قرآن سے حقیقت اس کے برعکس سامنے آتی ہے۔ قرآن سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اﷲنے تمام انبیاء بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے اور ان کے ساتھ کتابِ برحق نازل کی تا کہ لوگوں کے مابین اس چیز کا فیصلہ کر