کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 25
’’اصل دین‘‘ بنیادی طور پر ’’غیر اﷲبندگی سے اجتناب کرتے ہوئے صرف اﷲکی بندگی اختیار کرنا اور ساتھ اﷲپہ ایمان رکھنا‘‘قرار پاتا ہے۔ آیتِ بالا سے اصل دین سامنے آنے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور بندگی کے حوالے سے آپ کا طریقہ اختیار کرنا اسی ’’اصل دین‘‘ کا وضاحتی حصہ قرار پاتا ہے۔ آیتِ بالا سے جہاں غیر اﷲکی بندگی سے اجتناب کرتے ہوئے صرف اﷲکی بندگی اختیار کرنا دین کی اصل میں سے قرار پاتا ہے وہیں ساتھ اﷲپہ ایمان لانا اس اصل دین کا حصہ قرار پاتا ہے اس سے (ایمان کے ساتھ عمل کے لازمی ہونے کی طرح) عمل کے ساتھ ایمان کے لازم ہونے کا معاملہ سامنے آتا ہے، اس حوالے سے اﷲتعالیٰ کا ایک اور ارشاد ہے کہ:۔ ﴿ وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ ’’ اور جس نے ایمان سے انکار کیا تو اس کا عمل ضائع ہو گیا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘ (المائدہ:5)۔ آیتِ بالا سے اُن لوگوں (کفار) کی حقیقت واضح ہوتی ہے جو زندگی بھر لوگوں کی فلاح و بہبود کے کام کرتے رہتے ہیں مگر اﷲکی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت نہ دینے کی بنا پر ان کے یہ تمام اعمال ضائع چلے جاتے ہیں اور وہ آخرت میں خسارے سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اس بات کی شہادت دے رہا ہوتا ہے کہ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘تو وہ ’’ایمان و عمل کے باہم لازم و ملزوم ہونے‘‘کی بنا پر دراصل یہ تین نکاتی عہد کر رہا ہوتا ہے کہ! 1۔اب سے میں ہر غیر اﷲکو الٰہ ماننے سے انکار (کفر) کرتا ہوں اور ہر غیر اﷲکی بندگی/ عبادت سے انکار کرتا ہوں۔