کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 227
ابوبکر رضی اللہ عنہ بیعت سے پہلے امت میں بہت محترم تو تھے مگر اطاعت کیلئے کسی شرعی دلیل کے حامل نہ تھے اس بنا پر صحابہ ان کے موجود ہونے کے باوجود ان پر مجتمع نہ ہو پا رہے تھے مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ پر عمر رضی اللہ عنہ کے بیعت کرنے کے ساتھ ہی شرعی دلیل ’’پہلی بیعت‘‘ کے حامل ہو گئے اس کے ساتھ ہی امت کے خلیفہ و امام قرار پا گئے ، اب ان سے اختلاف رکھنے ولوں کیلئے بھی کوئی چارہ اس کے سوا نہ رہ اتھا کہ شرعی دلیل کے حامل اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کی اطاعت اختیار کر لیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اندھی تقلید میں ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسی عظیم المرتبت شخصیت پر بھی متفق نہ ہو سکے لیکن جونہی آپ شرعی دلیل کے حامل ہو گئے ، صحابہ رضی اللہ عنہم ان پر باآسانی متفق ہو گئے۔ اس ساری تفصیل سے تقررِ خلیفہ کے حوالے سے جو اصول واضح ہوتا ہے وہ ’’تقررِ خلیفہ سے پہلے اتفاقِ امت‘‘ کی بجائے شرعی دلیل کی بنا پر خلیفہ قرار پا جانے والی شخصیت پر اتفاقِ امت ہے ‘‘اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر امتی کو ’’پہلی بیعت‘‘ کے حامل سے وفاداری کرنے اور اسے اس کا حق دینے کا حکم دے رہے ہیں نہ کہ پوری امت کو متفق ہو کے پہلی بیعت کرنے کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: [فوْا بِبَیْعَۃِ الْاَوَّلِ فَالْاَوَّلِ اَعْطُوْھُمْ حَقَّھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ سَائِلُھُمْ عَنْ مَّا اسْتَرْعَاھُمْ][بخاری، ابوہریرہ رضی اللّٰه عنہ ] ’’ پہلی بیعت کے (حامل کے) ساتھ وفاداری کرو اور پھر پہلی کے ساتھ تم انہیں ان کا حق دو ان سے ان کی رعیت کے بارے میں اﷲپوچھے گا۔‘‘