کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 226
3۔اہل ایمان ازخود یا کسی کی دعوت دینے پر بھی کسی ایسی چیز یا شخص پر متفق نہیں ہو سکتے جس پر متفق ہونے کیلئے کوئی شرعی دلیل نہ ہو جبکہ اندھا دھند (اندھی تقلید میں) کسی کے جھنڈے تلے لڑتے ہوئے مارے جانے کو جاہلیت کی موت مرنا بھی کہا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:۔ [مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَاٰیَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ اَوْیَدْعُوْ اِلٰی عَصَبَۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبَۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃ] ’’ جو شخص اندھا دھند (اندھی تقلید میں) کسی کے جھنڈے تلے لڑتا ہوا مارا جائے جو عصبیت کیلئے غضب ناک ہو، عصبیت کی طرف دعوت دے اور عصبیت کی نصرت کرے اور قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیت کا قتل ہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد انبیاء کے بعد سب سے بہترین لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ازخود کسی شخص پر متفق نہیں ہو پا رہے تھے اور اس سلسلے میں ان کے تین گروہ بن گئے تھے۔ مہاجرین کی اکثریت نے ابوبکر رضی اللہ عنہ پہ اتفاق کر لیا تھا مگر علی رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ والوں نے اختلاف کیا تھا اور انصار اپنے میں سے خلیفہ بنانا چاہتے۔ جب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما انصار کے پاس ثقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے تو وہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مدلل خطاب کے باوجود ایک خلیفہ انصار اور ایک مہاجرین میں سے مقرر کرنے کی بات سامنے آ گئی جس پر شوروغل مچ گیا اور لوگوں کی آوازیں بلند ہو گئیں حتی کہ بقول عمر رضی اللہ عنہ مجھے خوف پیدا ہو گیا تو جھٹ میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ اے ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ بڑھائیے۔ انہوں نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے بیعت کر لی اور مہاجرین نے بھی ان سے بیعت کر لی اور ان کے بعد انصار نے بھی ان سے بیعت کر لی۔