کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 221
آیاتِ بالا سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اعلانِ نصرت و بیعت نصرت کیلئے ضروری نہیں کہ ایسا کرنے والے صاحب اختیار ہوں پھر یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نصرت کی صورت صرف یہی نہیں کہ اپنا اقتدار خلیفہ کو منتقل کر دیا جائے بلکہ کمزوروں کا اطاعت اختیار کرنا بھی ان کی طرف سے نصرت کی صورت ہے کیونکہ حواریوں نے اعلان نصرت کے بعد اطاعت ہی کا اعلان کیا تھا اور کتاب و سنت سے واضح ہوتا ہے کہ نصرت کی بنیادی صورت ’’اطاعت ‘‘ ہی ہے اور ’’اقتدار کے ذریعے سے نصرت’‘ بھی اطاعت ہی کی بنیاد پر فراہم کی جاتی ہے اور جو لوگ صاحبِ اقتدار نہیں ہوتے جب وہ ’’اطاعت کے ذریعے نصرت’‘ فراہم کرتے ہیں اور صاحبابِ اقتدار تک دعوتِ حق پہنچاتے ہیں تو اس سے صاحبانِ اقتدار کی نصرت ملنے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ بیعتِ عقبہ اوّل میں مدینہ کے جن بارہ افراد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ان کی بیعت میں، شرک نہ کرنے کے بعد ایک اہم بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا ہی تھی۔ عقبہ کی اس بیعت کی تفصیل بخاری میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ:۔ [بَایِعُوْنِیْ عَلَی اَنْ لَّا تُشْرِکُوْا بِاللّٰہَ شَیْئًا وَلَا تَسْرِقُوْا وَلَا تَزْنُوْا وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ وَلَا تَأْتُوْا بِبُھْتَانٍ تَفْتَرُوْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْکُمْ وَاَرْجُلِکُمْ وَلَا تَعْصُوْا فِیْ مَعْرُوْفٍ فَمَنْ وَفِیْ مِنْکُمْ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ وَمَنْ اَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا فَعُوْقِبَ فِی الدُّنْیَا فَھُوَ کَفَّارَۃٌ لَہٗ وَمَنْ اَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا ثُمَّ سَتَرَہُ اللّٰہُ فَھُوَ اِلَی اللّٰہِ اِن شَآئَ عَفَا عَنْہُ وَاِنْ شَآئَ عَاقَبَہٗ فَبَا یَعْنَاہُ عَلٰی ذٰلِکَ] ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آؤ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اﷲکے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے ، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے، اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان سے گھڑ کر کوئی بہتان نہ لاؤ گے اور کسی معروف بات میں