کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 213
ہے۔ اس وقت ہم بیعت کرنے اٹھے تو اسعد بن زرارہ نے جو ان (ستر آدمیوں) میں سب سے کم عمر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولے: اہل یثرب ذرا ٹھہر جاؤ!ہم آپ کی خدمت میں اونٹوں کے کلیجے مار کر (یعنی لمبا چوڑا سفر کر کے) اس یقین کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اﷲکے رسول ہیں۔ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں سے لے جانے کے معنی ہیں سارے عرب سے دشمنی، تمہارے چیدہ سرداروں کا قتل اور تلواروں کی مار، لہٰذا اگر یہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہو تب تو انہیں لے چلو اور تمہارا اجر اﷲپر ہے اور اگر تمہیں اپنی جان عزیز ہے تو انہیں ابھی سے چھوڑ دو۔ یہ اﷲکے نزدیک زیادہ قابلِ قبول عذر ہو گا۔ (اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی بات سُن کر) لوگوں نے کہا اسعد بن زرارۃ رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ اﷲکی قسم ہم اس بیعت کو نہ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ توڑ سکتے ہیں ۔ (جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے) ہم لوگ اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیعت لی اور اس کے عوض جنت کی بشارت دی۔(احمد، باقی مسند المکثرین، جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ) مدینہ کے مومنین کی نصرت ہی ایس چیز تھی جس کی بنا پر وہ مومنین انصارِ مدینہ کہلائے، اسی نصرت کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے اقتدار کے حامل ہوئے۔ اس کے بعد اﷲکی طرف سے ملنے والی مومنین کی نصرت ہی ایسی چیز تھی جس کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم قتال کے قابل ہوئے اور یہی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتدار میں وسعت کا باعث بنی۔ مومنین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کیلئے ابھارتے ہوئے اﷲتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:۔ ﴿ یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَالَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمْ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّا قَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی