کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 184
رَبِّہٖ اَحَدًا﴾ [الکہف:110] ’’ جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔‘‘ سورئہ نور کی آیت میں ایمان کے ساتھ عملِ صالح کا ذکر ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح کے بھی لازم ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ کتاب و سنت میں اعمالِ صالح کی پوری تفصیل ملتی ہے جن میں سے اقامتِ صلوٰۃ، ایتائے زکوٰۃ ہجرت ، جہاد فی سبیل اﷲاور حج، امت کی اجتماعیت قائم رکھنے کے حوالے سے اور غلبے کی جدوجہد کے حوالے سے مشہور ترین ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ان کے حوالے سے یہ بات اہم ترین ہے کہ ایک تو ان کا ’’امام ‘‘ کی اقتداء و قیادت اور نگرانی میں ادا کیا جانا لازم ہے پھر امت کی اجتماعیت قائم رکھنے کیلئے ان کا ’’صرف ایک امام‘‘ کی اقتداء و قیادت اور نگرانی میں ادا کیا جانا لازم ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اہل ایمان ایک امام اختیار کرنے کے سلسلے میں صرف اسی شخص پر مجتمع ہو سکتے ہیں جو اﷲکی مقرر کردہ نشانیوں اور شرائط کا حامل ہواس بنا پر امام شرعی کہلا سکتا ہو نہ کہ ان اماموں پر مجتمع ہو سکتے ہیں جو اپنی امامت کے حوالے سے شرعی دلیل بھی نہ رکھتے ہوں بلکہ الٹا اہل ایمان کو جن سے وابستگی سے قطعاً منع بھی کیاگیا ہو۔ غلبے کیلئے اہل ایمان کی ہزارہا اماموں کی قیادت میں مختلف طریقوں سے متفرق اور اکثر اوقات باہم متحارب جدوجہد کے مقابل ان کی ایک طریقے پر یعنی صرف صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر ایک امام شرعی (خلیفہ) کی قیادت میں مجتمع اور منظم جدوجہد جو اثرات لا سکتی ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ بنی اسرائیل کو شرعی امراء کی قیادت میں جدوجہد کر کے مغلوبیت سے غلبہ حاصل ہوا کرتا تھا