کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 181
ہو تم ان کیلئے مہر (نکاح کر چکے ہو) تو (دینا ہو گا) آدھا مہر۔‘‘ جس طرح اﷲکی مقررکردہ شرط ’’نکاح’‘ پوری کرنے پر ایک مرد عورت کا شوہر قرار پا جاتا ہے اور اس کی زوجیت کا حقدار ٹھہر جاتا ہے، اسی طرح اﷲکی مقرر کردہ شرائط پوری کرنے پر ایک شخص خلیفہ قرار پا جاتا ہے اور سلطنت کا حقدار قرار پا جاتا ہے نہ کہ سلطنت کا حامل ہونے کی بنا پر خلیفہ قرار پاتا ہے۔ یہاں لوگ ایک اور بات کہتے ہیں کہ نکاح تو عورت سے کیا جاتا ہے اور وہ تب ہی ہو گا جب نکاح کیلئے عورت موجود ہو گی جب عورت ہی موجود نہیں ہو گی تو نکاح کیا ہوا اسے ہو گا اسی طرح خلیفہ تو سلطنت پر مقرر کیا جاتا ہے یوں وہ تب مقرر کیا جائے گا جب اس کیلئے سلطنت موجود ہو گی جب سلطنت ہی موجود نہیں تو خلیفہ کیا ہوا کیلئے مقرر ہو گا؟ جہاں تک سلطنت کے ہونے اور نہ ہونے کا تعلق ہے تو جس سلطنت کیلئے خلیفہ مقرر کرنا ہے وہ سلطنت تو آج تک موجود ہے وہی سلطنت جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم امت کے پاس چھوڑ کر گئے تھے اور جسے امت بیعت کے ذریعے خلفاء کو منتقل کرتی رہی پھر اﷲنے خلفاء کے ہاتھوں جس کی سرحدیں دور دور تک وسیع کرا دی تھیں۔ وہ سلطنت آج بھی اسلام کے نام سے منسوب ہے مگر اب اس پر طواغیت نے قبضہ کر لیا ہے۔ اب اس سلطنت کو واپس لینا ہے مگر کیسے لینا ہے؟ کیا اَن گنت غیر شرعی اماموں کی قیادت میں منقسم اور باہم متحارب جدو جہد کرتے ہوئے؟…نہیں…جو چیز سلطنت و اقتدار سے ذلت میں پہنچانے والی ہو وہ ذلت سے اقتدار میں نہیں پہنچا سکتی…کتاب و سنت سے اس کا ایک ہی طریقہ سامنے آتا ہے۔ ’’ایمان و عمل صالح کے تحت صرف ایک اﷲکی بندگی اور صرف ایک امام کی قیادت میں منظم وجدوجہد!‘‘ اب سوچیں کہ مغلوبیت کی حالت سے اپنی سلطنت واپس لینے کی اس ’’منظم جدوجہد‘‘ کیلئے امام شرعی پہلے مقرر کرنا ہو گا یا بعد میں؟ اور