کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 177
﴿ اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرَۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّنُوْرٌ یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُھَدَآئَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً وَمَنْ لَمْ یَہْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾ [المائدہ:44] ’’ بیشک ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور ہے ، انبیاء جو کہ اﷲکے فرمانبردار تھے اسی کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کے فیصلے کیا کرتے تھے جو یہودی کہلائے اور درویش اور علماء بھی (اسی کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے) کیونکہ وہ کتاب اﷲکے محافظ ٹھہرائے گئے تھے اور وہ اس پر گواہ تھے، سو تم لوگوں سے مت ڈرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو اور میری آیات کو حقیر معاوضے پر مت بیچو اور جو لوگ اﷲکے نازل کردہ کے مطابق فیصلے نہ کریں تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔‘‘ ان کی اس بات کی ’’خلیفہ زمین کے حامل ہو جانے کی بنا پر ہوتا ہے’‘ کو صحیح مان لیا جائے تو بادشاہ (ان کی سمجھ میں حقیقی خلیفہ) بھی سلطنت کے حامل ہو جانے کی بنا پر ہی ہونا چاہئے اور وارث (خلیفہ سے ایک اور مراد) بھی وراثت کے حامل ہو جانے کی بنا پر ہی ہونا چاہئے لیکن اﷲتعالیٰ ان چیزوں کے بغیر ہی لوگوں کو خلیفہ، بادشاہ اور وارث قرار دے رہا ہے مثلاً: 1۔اﷲتعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا جبکہ ابھی آدم علیہ السلام زمین پہ پہنچے ہی نہیں بلکہ اپنی تخلیق سے ایک عرصہ بعد تک جنت ہی میں مقیم رہے۔ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔ ﴿ وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا ﴾[البقرہ:30]