کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 171
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں کہ: [وَمَنْ یَّعْصِ الْاَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِیْ وَاِنَّمَا الْاَمَامُ جُنَّـۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ وَیُتَقِی بِہٖ] [بخاری، باب الجہاد والسیر، ابوہریرہ رضی اللّٰه عنہ ] ’’ جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور امام ڈھال ہے اسی کی قیادت میں قتال کیا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ دفاع کیا جاتا ہے۔‘‘ [مَنْ کَرِہَ مِنْ اَمِیْرِہِ شَیْئًا فَلْیَصْبِرُ فَاِنَّہٗ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً]۔[بخاری، باب الفتن، عبد اﷲبن عباس رضی اللّٰه عنہ ] ’’ جس کو اپنے امیر میں کوئی بات بری لگے پس وہ صبر کرے حقیقت یہ ہے جس نے سلطان سے بالشت بھر خروج کیا وہ جاہلیت کی موت مر گیا﴾ احادیثِ بالا سے امیر، امام اور سلطان کی اطاعت اور ان سے وابستگی کے حوالے سے احکامات سامنے آرہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیاستِ امہ کا ذمہ دار چونکہ ’’خلیفہ’‘ کو قرار دیا گیا ہے اس لئے سیاسی اطاعت ووابستگی کے مذکورہ احکامات یقینا خلیفہ ہی کی طرف جاتے ہیں، اس سے خلیفہ کے دیگر نام عہدہ سامنے آتے ہیں یعنی امیر، امام اور سلطان۔ امارتِ امہ، امامت امہ اور تدبیر سلطنتِ امہ سیاست امہ (خلافت) میں شامل تین چیزیں احادیث بالا سے جہاں خلیفہ کے دیگر نام عہدہ سامنے آتے ہیں یعنی امیر، امام اور سلطان وہیں ان نامون سے خلفاء کی سیاست (خلافت) کی نوعیت واضح ہوتی ہے یعنی امت کی امارت، امامت اور تدبیر سلطنت وغیرہ۔ اس سے ان چیزوں کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے جو خلفاء کی خلافت (سیاست امہ) میں شامل ہیں یعنی امت کی امارت، امت کی امامت اور امت کی سلطنت