کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 159
بیعت کے حامل‘‘ امام کی بیعت و اطاعت کے پابند ہوتے ہیں تو اس سے ان کی وحدت کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ 3۔ امام شرعی کی بیعت ’’لازماً‘‘ اختیار کرنے کی بنا پر: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں کہ:۔ [تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِمَامَھُمْ][بخاری، حذیفہ بن یمان رضی اللّٰه عنہ ] ’’ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے لازماً وابستہ ہو جاؤ۔‘‘ [مَنْ خَلَعَ یَدًا مِّنْ طَاعَۃٍ لَقِیَ اللّٰہَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَا حُجَّۃَ لَہٗ وَمَنْ مَاٰتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً ] [مسلم، کتاب الامارۃ، عبد اﷲبن عمر رضی اللّٰه عنہ ] ’’ جس نے اطاعت سے ہاتھ نکالا وہ قیامت کے دن اﷲسے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس اپنے اس عمل کیلئے کوئی حجت نہ ہو گی اور جو اس حال میں مر گیا کہ اس کی گردن میں بیعت کا قلادہ نہیں وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ پہلی حدیث میں امام سے لازماً وابستہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ امام کون ہوتا ہے اور دوسری حدیث میں اطاعت سے ہاتھ نکالنے والے کیلئے وعید سنائی گئی ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ وعید کس کی اطاعت سے ہاتھ نکالنے پر ہے لیکن جب کتاب و سنت میں نظر دوڑائی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اطاعت صرف اﷲکی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر اولی الامر وامام کی ہے اوریہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سیاست امہ کے حوالے سے اولی الامر وامام صرف خلیفہ (یا اس کا مقرر کردہ امیر ہی ہوتا) ہے ، اس بناء پہ اﷲکے بعد اطاعت سے ہاتھ نکالنے والا قیامت کے دن اﷲسے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس اپنے اس عمل کے حوالے سے کوئی دلیل نہ ہو گی۔