کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 156
کے ساتھ حکم کرے اور منکر سے منع کرے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے واضح احکامات آ جانے کے باوجود تفرق اختیار کیا اور اختلاف میں پڑے اور ان کیلئے عذابِ عظیم ہے۔‘‘ (آل عمران:104…105) آیتِ بالا میں خیر، معروف اور منکر کے الفاظ آئے ہیں، اوپر حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں مذکور ’’خیر کے لفظ سے اسلام، معروف سے کتاب و سنت‘‘ اور ’’منکر سے اھواء وغیرہ‘‘ مراد معلوم ہوتا ہے جیسا کہ حدیث کے الفاظ ہیں کہ’’کُنَّا فِیْ جَاھِلِیَّۃٍ وَشَرِّفَجَائَ نَا اللّٰہُ بِھٰذَا الْخَیْرِ‘‘ ہم جاہلیت اور شر میں تھے اﷲنے یہ خیر (اسلام) ہمیں دکھائی…اور ’’قَوْمٌ یَھْدُوْنَ بِغَیْرِ ھَدْیِیْ تَعْرِفُ مِنْھُمْ وَتُنْکِرُ‘‘ایسے لوگ ہوں گے جو میرے طریقے (کتاب و سنت) کی ہدایت نہیں دیں گے، ان میں کچھ باتیں معروف (کتاب و سنت سے) ہوں گی اور کچھ منکر (مبنی براھواء) مسلمان ’’معروف’‘ پہ قائم رہنے کی بنا پر مجتمع رہتے ہیں اور ’’منکرات‘‘ کی اتباع کی بنا پر فرقوں میں بٹتے ہیں۔ مسلمانوں کی جماعت ملت اﷲکے حکم کی اطاعت میں جب مسلمانوں کو معروف کے ساتھ حکم کرے گی اور منکرات سے منع کرے گی تو تفرق سے ان کی وحدت کی صورت پیدا ہو گی، اس بنا پر مسلمانوں کی جماعت ملت ان کی وحدت کا ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہو گی۔ مسلمانوں کا امام مسلمانوں کے امام کے حوالے سے یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ نبی کی موجودگی میں نبی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ مسلمانوں کا امام شرعی ہوتا ہے۔ (امام کے تقرر اور اس کے سلطنت و اقتدار کے