کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 154
کسی مسلمان کا ’’جماعت ہونا‘‘ اور ’’جماعت کے ساتھ ہونا‘‘ کسی مسلمان کا ’’جماعت ہونا‘‘ تو واضح ہو چکا ہے لیکن بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جو بھی امام شرعی کی بیعت کر لے وہ جماعت ہو جاتا ہے یا یوں کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ایک مسلمان ابھی تفرق فی الدین کی دیگر قسموں میں مبتلا ہے تو محض امام کی بیعت کی بنا پر وہ ’’جماعت کے ساتھ’‘ تو ہو سکتا ہے مگر وہ مسلمانوں کی جماعت میں شامل (اپنی ذات میں جماعت) نہیں ہو سکتا۔ وہ مسلمانوں کی جماعت میں شامل یا اپنی ذات میں جماعت تب ہی ہو سکتا ہے جب وہ تمام تفرقات چھوڑ دے اور کتاب و سنت پہ اﷲکے حکم کے مطابق کاربند ہو جائے البتہ اس کے جماعت کے ساتھ ہونے سے اس کی ہدایت کا اہتمام ہو سکتا جبکہ جماعت سے بالشت بھر دور رہنے سے وہ اسلام کا قلادہ گلے سے اتارنے والا ہوتا ہے اور اس حال میں مرنے پر وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پہلے گزر چکے ہیں۔ بعض لوگ ہر اس شخص کو مسلمان کہتے ہیں جو امامِ شرعی کی بیعت کر لے اور جو ابھی امام کی بیعت نہ کئے ہوئے ہو اسے مسلمان نہیں کہتے اس سے لامحالہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو ابھی امام کی بیعت نہیں کر سکا وہ کافر ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ امام کی بیعت کرنے یا نہ کرنے اور مسلمانوں کی جماعت ملت (فرد یا گروہ) ہونے یا نہ ہونے کا تعلق کفرو اسلام سے نہیں بلکہ دین میں تفرق سے بچنے یا تفرق میں مبتلا ہونے سے ہے۔ لوگ اگر توحید ورسالت کی شہادت دیتے ہیں مگر تفرقات میں مبتلاء ہیں تب بھی وہ مسلمان ہیں جب تک کہ شرک یا کسی اور کفر بواح میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ تفرقات میں مبتلا ہونے والے