کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 148
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: [کَانَتْ بَنُوْا اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبْیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیِّ وَاِنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَائَ فَیَکْثُرُوْنَ قَالُوْ فَمَا تَأمُرُنَا قَالَ فُوْا بِبَیْعَۃِ الْاَوَّلِ فَاْلْاَوَّلِ اَعْطُوْھُمْ حَقَّھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ سَائِلُھُمْ عَنْ مَّا استرعاھم][بخاری، باب احادیث الانبیائ، ابی ہریرہ رضی اللّٰه عنہ ] ’’ تھے بنی اسرائیل ، ان کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے جب بھی کوئی نبی فوت ہو جاتا تو اس کے بعد نبی ہی آتا تھا، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت سے ہوں گے، لوگوں نے عرض کیا پھر آپ ہم کو کیا حکم فرماتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وفاداری کرو پہلی بیعت (کے حامل) کے ساتھ اور پھر پہلی بیعت کے ساتھ ہم انہیں ان کا حق دو، ان سے ان کی رعیت کے بارے میں اﷲپوچھے گا۔‘‘ حدیث بالا سے حقیقت واضح ہوتی ہے کہ دورِ انبیاء میں نبی ہی امت کا امیر شرعی ہوتا تھا جو امت کی سیاست کا ذمہ دار ہوتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء امت کے ’’شرعی امیر‘‘ ہوں گے۔ نبی، اس کے بعد خلیفہ یا ان کے مقرر کردہ امیر کے علاوہ حالتِ حضر میں کسی اور امیر کیلئے کوئی شرعی دلیل نہیں: کتاب و سنت میں حالتِ حضر یعنی حالتِ قیام میں نبی اس کے بعد خلیفہ یا ان کے مقررکردہ امیر کے علاوہ کسی اور امیر کے مقرر کرنے یا اس کی اطاعت کرنے کیلئے کوئی شرعی دلیل نہیں سوائے اس کے کہ حالتِ سفر میں امیر مقرر کیا جائے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا ہے کہ:۔