کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 146
جماعت کی ایک صورت ہے۔ 3۔ جماعت: مسلمانوں کے ’’جماعت افراد‘‘ کی اجتماعیت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جماعت سے وابستگی کا حکم بھی فرماتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جہنم کے دروازوں کی دعوت دینے والے فرقوں سے الگ رہنے کا حکم بھی فرماتے ہیں (دیکھئے حدیثِ حذیفہ رضی اللہ عنہ صفحہ:169) اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مجتمع انہی لوگوں کے ساتھ ہوا جا سکتا ہے جو خود بھی ’’جماعت’‘ ہوں یعنی کتاب و سنت پہ چلنے والے ہوں یوں جماعت (بمعنی اجتماعیت) بھی انہی لوگوں کی اجتماعیت کو کہا جا سکے گا جو خود بھی جماعت (بمعنی کتاب و سنت پہ قائم افراد) ہون، انہی کی جماعت (اجتماعیت) اﷲکو مطلوب ہے اور یہی شرعی جماعت کہلا سکتی ہے۔ اس کے برعکس بدعات پر چلنے والوں کی اجتماعیتوں کو اھواء پر مبنی ملتیں اور جہنم کے دروازوں کی دعوت دینے والے فرقے ہی کہا جائے گا۔ 4۔ جماعت: مسلمانوں کا شرعی امیر وامام: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: [مَنْ رَاٰی مِنْ اَمِیْرِہٖ شَیْئًا فَکَرِھَہٗ فَلْیَصْبِرْ فَاِنَّہٗ لَیْسَ اَحَدٌ یُفَارِقُ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَیَمُوْتُ اِلَّامَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً] ’’ جو کوئی اپنے امیر میں ایسی بات دیکھے جو اسے ناپسند ہو تو اسے چاہئے کہ صبر کرے کیونکہ جو کوئی جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہوا اور مر گیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام، عبد اﷲبن عباس رضی اللہ عنہ )۔ حدیثِ بالا سے دو باتیں سامنے آتی ہیں:۔