کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 128
زندہ قرار دیا، بعض نے آپ کو ہر جگہ حاضر ناظر کہنا شروع کیا، بعض آپ کو عالم الغیب بتانے لگے اور بعض نے آپ کی دعائیں سننے اور ان کا جواب دینے والا قرار دے کر پکارنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وہ اپنے اپنے غلو کی اقتداء میں الگ الگ گروہون میں بٹے نظر آتے ہیں۔ 4۔اﷲکی بندگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں کی بجائے نئے طریقوں (بدعات) سے کرنا: اﷲتعالیٰ کی بندگی نبی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرنا دین کا اہم اصول ہے اور اس کی پابندی نہ کرنا اور بندگی کے خود ساختہ طریقے اختیار کرنا دین میں اختیار کیا جانے والا ایک اور بڑا تفرق ہے جس میں اہل کتاب بھی مبتلا ہوئے تھے مثلاً نصرانیوں کے حوالے سے اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔ ﴿ وَجَعَلْنَا فِی قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَافَۃً وَّرَحْمَۃً وَرَھْبَانِیَّۃً بَابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْھِمْ اِلَّا ابْتِغَائَ رِضْوَانَ اللّٰہِ فَمَا رَعُوھَا حَقَّ رَعَایَتِھَا﴾ ’’ اور جن لوگوں نے اس (عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام) کی پیروی اختیار کی ان کے دلوں میں ہم نے شفقت اور رحمت ڈال دی اور رہی رہبانیت تو اسے انہوں نے اﷲکی رضا کیلئے خود ہی گھڑ لیا تھا ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔‘‘ (الحدید:27) اﷲتعالیٰ نے اپنی بندگی کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے یعنی نبی کا اختیار کردہ طریقہ۔ اہل ایمان جب تک نبی کے طریقے کے مطابق اﷲکی بندگی پہ قائم رہتے ہیں ایک رہتے ہیں لیکن جونہی وہ بندگی کے خودساختہ طریقے اختیار کرتے ہیں تو اپنے اپنے اختیار کردہ طریقوں کی اقتداء میں الگ الگ