کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 123
قدم قرآن سے سبیل المؤمنین (مؤمنین کے راستے) سے وہ راستہ سامنے آتا ہے جو اﷲنے مؤمنین کیلئے مقرر کیا ہے اور جس پہ مؤمنین کو چلنا ہے یعنی ’’صرف اﷲاور اس کے رسول کی اطاعت کرنا’‘ جسے اﷲنے صراطِ مستقیم کہا ہے اور جس پر چلنے والے، اس پر چلنے کی بنا پر، انعام یافتہ ہوتے ہیں۔ اس راستے کی اہم چیزی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے جسے مؤمنین نے اپنانا ہے، دوسرے لفظوں میں اس راستے کی ایک اہم چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش پا ہیں جن پر پاؤں رکھتے ہوئے مؤمنین نے آگے بڑھنا ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ مؤمنین کیلئے اﷲکے مقرر کردہ راستے (صراطِ مستقیم) پر چلتے ہوئے کسی خطا کی بنا پر مؤمنین کا پاؤں کبھی رستے سے باہر بھی پڑ سکتا ہے اﷲکے مقرر کردہ اسوے کو اختیار کرنے میں خطا کی بنا پر مؤمنین سے کچھ کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے اور اﷲکے مقرر کردہ نقش پاپر قدم رکھتے ہوئے خطا کی بنا پر مؤمنین کے قدم ذرہ ادھر ادھر بھی ہو سکتے ہیں لیکن بعض لوگ سبیل المؤمنین سے یہی راستہ مراد لیتے ہیں جو مؤمنین کی طرف سے صراط مستقیم پر چلتے ہوئے خود ان کے اپنے نقش پا سے متعین ہوتا ہے اور مذکورہ مراد لینے والوں میں سے بعض اس سبیل المؤمنین سے علمائِ کرام کے اجتہادات وغیرہ مراد لیتے ہیں اور بعض امت کا اجماع مراد لیتے ہیں جبکہ کتاب و سنت سے اجماعِ امت کا نہ کوئی اصول ہی ملتا ہے اور نہ ہی اس کی اتباع ہی کا کوئی حکم سامنے آتا ہے پھر خود اس بات (کہ سبیل المؤمنین سے اجماعِ امت مراد ہے) ہی پہ امت کا اجماع ہونے کا کوئی دعویٰ کر سکتا ہے مستزاد اس کے کہ کوئی اجماع امت کو ثابت بھی کر سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ سبیل المؤمنین سے بعض لوگوں کی متعین کردہ مذکورہ بالا مراد اختیار کی جائے تو اس سے اﷲاور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے مؤمنین واجب الاتباع ٹھہرتے ہیں جبکہ