کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 120
الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشَّھُدَاَئَ وَالصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُوْلٰئِکَ رَفِیْقًا﴾ [النسائ:68…69] ’’ اور ضرور ہدایت دیتے ہم ان کو صراطِ مستقیم کی اور جس نے اطاعت کی اﷲکی اور رسول کی سو یہی ہیں جو ان لوگوں کے ساتھ ہیں جن پر اﷲنے انعام کیا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور بہت اچھے ہیں یہ لوگ بطورِ رفیق۔‘‘ اوپر پہلی آیت میں شیطان کی بندگی نہ کرنے اور صرف اﷲکی بندگی کرنے کو صراطِ مستقیم قرار دیا گیا۔ آیت میں تیسری بات (طریق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرنا) اگرچہ ذکر نہیں کی گئی مگر دوسری آیت کی بنا پر مذکورہ بالا باتوں (شیطان کی بندگی نہ کرنے، صرف اﷲکی بندگی کرنے) کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق اختیار کرنا صراطِ مستقیم میں خود بخود شامل ہو جاتا ہے۔ اوپر دوسری آیت میں ’’اﷲاور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والوں‘‘ کو ان لوگوں کے ساتھ قرار دیا گیا ہے جن پر اﷲنے انعام فرمایا اور سورۃ فاتحہ سے یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ انعام یافتہ وہی ہیں جو صراطِ مستقیم پر ہیں۔ آیت میں انعام یافتہ لوگوں کے ساتھیوں کا خاص عمل ’’اﷲاور رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کتاب و سنت) کی اطاعت ہی بتایا گیا ہے، یوں یہی صراطِ مستقیم قرار پاتا ہے۔‘‘ اوپر دوسری آیت میں تیسری بات (غیر اﷲکی اطاعت سے اجتناب) اگرچہ ذکر نہیں کی گئی مگر پہلی آیت کی بنا پر اﷲاور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تب ہی صراطِ مستقیم کے درجے کو پہنچتی ہے جب وہ ہر کسی اور کی اطاعت سے پاک ہو۔ درج بالا تفصیل کے مطابق ’’کسی اور کی اطاعت نہ کرنا اور صرف اﷲاور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا ہی صراطِ مستقیم قرار پاتا ہے۔