کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 111
گروہوں کی پکار پکارنے کی اجازت نہیں تو پھر اے اہل حدیثو!اے حنفیو، اے پاکستانیو، اے پنجابیو، اے پشتونو، اے افغانیو، اے عربیو، اے سعودیو اور اے اعراقیو وغیرہ کی پکار پکارنے اور ان کی بناء پر گروہوں و ملکوں میں تقسیم ہونے، ایک دوسرے کے ملک میں جانے کیلئے پاسپورٹ اور ویزے کی پابندی لگانے حتی کہ ایک دوسرے کے مقابل آنے کی کہاں گنجائش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان گروہ بندیوں کی پکار جاہلیت کی بدترین مثال ہے اور شرعی جماعت کے علاوہ ان گروہ بندیوں کی محبت ہی عصبیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے قومیں اور قبیلے تو صرف پہچان اور تعارف کیلئے بنائے ہیں نہ کہ تقسیم ہولے اور باہم متحارب ہونے کیلئے۔ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔ ﴿یٰآیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ﴾ ’’ اے انسانو!حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تا کہ تم پہچانے جاؤ بلاشبہ تم میں زیادہ عزت والا اﷲکے نزدیک وہ ہے جو تم میں زیادہ متقی ہے، بیشک اﷲسب کچھ جاننے والا باخبر ہے۔‘‘ (الحجرات:13)۔ اگر عام انسانوں کی قومیں اور قبیلے تعارف کیلئے ہیں تقسیم ہونے کیلئے نہیں تو اہل ایمان کی قومیں اور قبیلے تو بدرجہ اتم تعارف کیلئے ہیں تقسیم ہونے کیلئے نہیں، اسی طرہ ان کے علاقے پہچان کیلئے ہیں تقسیم کرنے کیلئے نہیں مثلاً پاکستان، افغانستان، ایران، عراق وغیرہ کا نام پہچان کیلئے تو استعمال کیا جا سکتا ہے اور انتظامی طور پر انہیں خلافت اسلامیہ کے صوبے تو بنایا جا سکتا ہے لیکن الگ الگ ملکوں کی صورت میں ان کی تقسیم اور اﷲکے ہاں سے اس تقسیم کی اجازت تلاش کرنے کی بجائے