کتاب: اگر تم مومن ہو - صفحہ 106
الگ چھاپ لیا، اب جس گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی پر وہ اتر رہا ہے۔‘‘ ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْئٍ اِنَّمَآ اَمْرُھُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ﴾ [الانعام:159] ’’ بیشک جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرق اختیار کیا اور گروہوں میں بٹ گئے، ان کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں، ان کا معاملہ تو اﷲکے ذمے ہے پھر وہ ان کو بتا دے گا جو کچھ یہ کرتے رہے ہیں۔‘‘ جس طرح وحدت کیفیتِ تقویٰ کا مظہر ہے اسی طرح وحدت کیفیتِ صبر کا بھی اظہار ہے جب کہ تنازعہ (تفرق) صبر کی ضد ہے۔ تنازعہ اہل ایمان کے کمزوری میں پڑنے اور ان کی ہوا اُکھڑ جانے پر منتج ہوتا ہے، اس کے مقابل صبر اﷲکا ساتھ میسر آنے کا سرٹیفکیٹ ہے جیسا کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔ ﴿یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاْثْبُتُوْا وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ [انفال:45…46] ’’ اے ایمان والو!جب تم دشمن گروہ کے مقابل آ جاؤ تو ثابت قدم رہو ور اﷲکی کثرت سے یاد کرو تا کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو اور اطاعت کرو اﷲکی اور اس کے رسول کی اور جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ، صبر سے کام لو بیشک اﷲصبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اختلاف و افتراق اور تنازعات کی کیفیت دشمن کے مقابل اہل ایمان کی کامیابی کو معدوم کر دیتی ہے جیسا کہ غزوئہ اُحد میں ہوا کہ ٹیلے پر تعینات مجاہدین نے آپس میں اختلاف