کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 99
اور انسان جس قدر ان حرام اور ممنوع چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے اسلام میں اسی قدر اس کے مراتب و درجات بلند ہوتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ کون مسلمان سب سے اچھاہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ۔))[1] ’’سب سے اچھا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ۔‘‘ زندہ لوگوں کے بارے میں زبان درازی کرنا تو دور کی بات ہے اسلام نے مردوں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: ((لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّہُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَی مَا قَدَّمُوا۔)) [2] ’’مردوں کو برا نہ کہو کیونکہ انھوں نے جیسا عمل کیا اس کا بدلہ پالیا۔‘‘ جس چیز کے نقصانات زیادہ ہیں شریعت نے اتنی ہی سختی سے اس سے روکا ہے اور اس فعل کی نوعیت کے حساب سے الفاظ کا انتخاب کیا ہے چونکہ افواہوں کی زد بل واسطہ انسانی حسب و نسب پر پڑتی ہے جو ہر کسی کا بنیادی حق ہے اور جس کی حفاظت برحق سے مقدم ہے، اسی لیے شریعت نے حسب و نسب پر طعن و تشنیع کو کفر سے تعبیر کیا ہے تاکہ لوگ اس سے اپنا دامن بچا سکیں ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِثْنَتَانِ فِيْ النَّاسِ ہُمَا بِہِمْ کُفْرٌ: الطَّعْنُ فِي النَّسَبِ وَالنِّیَاحَۃُ عَلَی الْمَیِّتِ۔))[3] ’’لوگوں میں دو چیزیں پائی جاتی ہیں اور وہ دونوں ہی کفر کے کام ہیں : (1) حسب نسب میں عیب لگانا (2) میّت پر نوحہ کرنا یعنی اس کے غم میں چیخنا چلانا اور اس کے اوصاف بیان کرکے رونا پیٹنا۔‘‘
[1] صحیح مسلم: 2587، ابوداؤد :4894۔ [2] صحیح البخاري : 1393، ابوداؤد :4899۔ [3] صحیح مسلم:67۔