کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 98
اسی نقطہ نظر سے شریعت نے دوسروں کو ایذاء پہنچانے کو حرام قرار دیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا ﴾ (الاحزاب : 58) ’’اور جو لوگ مومن مرد اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وہ (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔‘‘ بالخصوص (لوگوں کو) برا بھلا کہنے کا گناہ اس وقت اور سنگین ہوجاتا ہے، جب یہ گالی گلوچ اور الزام تراشی کے مرحلے سے گزر کر انسان کو دینی طور پر مطعون اور مہتم کیا جائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((لَا یَرْمِی رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوقِ وَلَا یَرْمِیہِ بِالْکُفْرِ إِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَیْہِ إِنْ لَمْ یَکُنْ صَاحِبُہُ کَذَلِکَ۔))[1] ’’کوئی کسی شخص کو کافر یا فاسق کہے اور وہ حقیقت میں کافر یا فاسق نہ ہو تو خود کہنے والا فاسق اور کافر ہوجائے گا۔‘‘ معاشرے سے لعن طعن اور گالی گلوچ کی بیماری کا خاتمہ کرنے کے لیے اس میں پہل کرنے والے کو شارع نے بڑے گناہ کا مرتکب قرار دیا ہے، بلکہ اس پر دونوں گالی گلوچ کرنے والے لوگوں کے گناہ کا ذمہ دار قرار دیا ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا فَعَلَی الْبَادِي مِنْہُمَا مَا لَمْ یَعْتَدِ الْمَظْلُوْمُ)) ’’باہم گالی گلوچ کرنے والے جو کچھ کہتے ہیں ، اس کا گناہ اس شخص پر ہوگا جس نے پہل کی ہو جب تک کہ مظلوم حد سے آگے نہ بڑھ جائے۔‘‘ (اگر وہ حد سے آگے بڑھ جائے تو زیادتی اور تجاوز کا گناہ اس پر ہوگا۔) واضح رہے کہ دست درازی اور زبان درازی شریعت کی نظر میں حرام ممنوع اور ظلم ہے
[1] صحیح البخاري : 6045، وصحیح مسلم : 61۔