کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 97
فسق برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں ۔‘‘ سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، مجاہد اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہما وغیرہ فرماتے ہیں کہ: ﴿ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ تم ایک دوسرے پر طعن و تشنیع نہ کرو اور ﴿ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ آپس میں کوئی کسی کو برے لقب سے نہ پکارے۔ اسی بات سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ ﴾ (الہمزۃ : 1) ’’بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والی اور غیبت کرنے والا ہو۔‘‘ ہمزۃ سے مراد وہ شخص ہے جو رو در رو برائی کرے اور لمزۃ وہ جو پیٹھ پیچھے غیبت کرے۔ بعض اس کے برعکس معنی کرتے ہیں ۔ جیسا کہ بعض نصوص میں یہ بات موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کائناتی نظام میں یہ ہے کہ وہ دوسروں کا مذاق اڑانے والے کو سزا دیتا ہے، اس طریقے سے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایسی آزمائش میں ڈال دیتا ہے کہ وہ خود مذاق کا ہدف اور ذلت و رسوائی کا نشانہ بن جاتا ہے، جیسا کہ فرمان نبوی ہے: ((وَلَا تُظْہِرْ الشَّمَاتَۃَ لِأَخِیْکَ، فَیَرْحَمَہُ اللّٰہُ وَیَبْتَلِیْکَ۔))[1] ’’اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت پر خوش نہ ہو، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے اور تمھیں آزمائش میں ڈال دے۔‘‘ شریعت میں ناحق کسی کو برا بھلا کہنا حرام ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُہُ کُفْرٌ۔))[2] ’’مسلمان آدمی کو گالی دینا اور اسے برا بھلا کہنا فسق و فجور کا کام ہے اور اس سے لڑائی جھگڑا کرنا کفر کا کام ہے۔‘‘
[1] الترمذي : 2506، حسن غریب۔ [2] صحیح البخاري: 48، وصحیح مسلم :64۔