کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 96
پہلا مبحث: لوگوں کو مطعون کرنے اور انہیں برا بھلا کہنے کا حکم ابن نجار[1] نے اسلامی شریعت میں عزت و آبرو کے بنیادی اور ضروری حق کی حفاظت کی مثال میں دوسروں کے خلاف گفتگو کی حرمت کو پیش کیا ہے اور اس کی دلیل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پیش کی ہے: ((فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ بَیْنَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہَذَا فِی شَہْرِکُمْ ہَذَا فِی بَلَدِکُمْ ہَذَا۔))[2] ’’یقینا تمہاری جان، تمہارا مال اور تمہاری عزت و آبرو تمہارے درمیان اسی طرح محترم اور مقدس ہیں جس طرح آج کے دن کی حرمت و تقدیس تمہارے اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔‘‘ لوگوں کی عیب جوئی اور ان کے ساتھ استہزاء کرنے اور ان کا مذاق اڑانے کی حرمت اور مذمت کے سلسلے میں بہت سارے واضح دلائل ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾ (الحجرات:11) ’’اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ، ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو، ایمان کے بعد
[1] شرح الکوکب المنیر 162/4۔ [2] صحیح البخاري : 67۔