کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 91
ہی نہ سکے اس لیے اپنی پوری کوشش کے بعد دلائل سے جو محل حاصل ہو، ظن غالب ہونے کے باوجود اس پر عمل واجب ہے۔ دوسرا ظن وہ ہے جو دل میں آجاتا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی، دلیل نہ ہونے کی وجہ سے دل میں اس کے ہونے یا نہ ہونے کی بات برابر ہوتی ہے، اسے شک بھی کہتے ہیں یا اس کے ہونے کا امکان اس کے نہ ہونے سے بھی کم ہوتا ہے یہ وہم کہلاتا ہے، ظن کی یہ صورتیں مذموم ہیں اور ان سے اجتناب واجب۔ (ان بعض الظن اللّٰه ) بے شک بعض گمان گناہ ہیں ، سے یہی مراد ہے۔ اور (ان الظن لا یغنی من الحق شیئا) ’’بے شک گمان حق کے مقابلے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا۔‘‘ اور ﴿ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ﴾ (النجم: 23) ’’یہ لوگ صرف اپنے گمان کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں میں اس ظن کا ذکر ہے۔‘‘ 3:… جیسا کہ اوپر گزرا حدیث میں ایسے ظن (گمان) سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جو بے دلیل ہو مثلاً ایک آدمی جو ظاہر میں صالح ہے اس کے عیوب پر اللہ کی طرف سے پردہ پڑا ہوا ہے۔ عام مشاہدہ میں وہ عفیف اور امانتدار ہے اس کی بددیانتی یا گناہ گار ہونے کی کوئی دلیل یا علامت نہیں اس کے متعلق بدگمانی کرنا حرام ہے ہاں اگر گمان کرنے کی کوئی واقعہ دلیل یا عدالت موجود ہو تو اس وقت گمان منع نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر گمان سے منع نہیں فرمایا بلکہ فرمایا: ﴿ اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ﴾ (الحجرات: 12) ’’زیادہ گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں ۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں فرمایا: ((ما یجوز من الظن۔)) ’’جو گمان جائز ہیں ۔‘‘ اور اس میں … سے یہ حدیث ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: