کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 90
بہت ملتی جلتی ہے۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ ﴾ (الحجرات: 12) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو بہت گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے بعض دوسرے کی غیبت کرے۔‘‘ آیت میں مسلمان کی عزت کو محفوظ رکھنے کی بہت ہی زیادہ تاکید کی گئی ہے چنانچہ بھلے تو کسی بھی مسلم بھائی کے معاملے میں خواہ مخواہ کے گمان سے منع فرمایا جس کا کوئی باعث اور کوئی سبب نہ ہو اگر گمان کرنے والا کہے کہ میں اس گمان کی تحقیق کے لیے جستجو کرتا ہوں سو اسے کہا گیا۔ ﴿ وَلَا تَجَسَّسُوا ﴾ جاسوسی مت کرو اگر وہ کہے جاسوسی کے بغیر ہی مجھ یہ بات ثابت ہوگئی ہے تو کہا گیا ﴿ وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا﴾ ایک دوسرے کی غیبت (دوسرے بھائی کی عدم موجودگی میں وہ بات جو اسے ناپسند ہو خواہ اس میں موجود ہی ہو) مت کرو۔[1] 2:…ظن کی دو حالتیں ہیں ایک ظن غالب جو کسی دلیل یا مضبوط علامت کے ساتھ قوی ہو جائے اس ہی عمل کرنا درست ہے شریعت کے اکثر احکام الٰہی ہی مبنی ہیں اور دنیا کے تقریباً تمام کام اسی پر چلتے ہیں مثلاً عدالتوں کے فیصلے گواہوں کی گواہی یا پھر تجارت ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے اطلاعات اور خبر واہد کے راویوں کی روایت وغیرہ ان سب چیزوں میں غور و فکر جانچ پڑتال اور پوری کوشش سے حاصل ہونے والا علم بھی ظن غالب ہے، اور اس پر عمل واجب ہے اس ظن اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی جانب مخالف ادنیٰ سا امکان رہتا ہے مثلاً ہو سکتا ہے گواہ کی گواہی درست نہ ہو، اطلاع دینے والا جھوٹ بول رہا ہو راوی کو غلطی لگی ہو وغیرہ لیکن اس امکان کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ اگر اس امکان پر جائیں تو دنیا کا کوئی کام ہو
[1] فتح الباری۔