کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 9
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
مقدمہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، اما بعد!
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿ إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ ﴿١٠٥﴾ (النحل : 105)
’’جھوٹ تو وہی باندھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں ۔‘‘
مفسر قاسمی لکھتے ہیں :
’’ جھوٹ انہی لوگوں کو زیبا ہے جو ایمان نہیں لاتے کیونکہ انھیں سزا کا ڈر نہیں ہوتا جو انھیں جھوٹ سے روک سکے۔‘‘[1]
جھوٹ انسان کو اندھیروں کی طرف دھکیلتا ہے، انسان فطرتی طور پر کمزور ہے۔ ہر موقع پر کامیابی کو پسند کرتا ہے۔ جب کہ اہل ایمان اپنے نفس پر کنٹرول اور ضبط رکھتے ہیں ، کیونکہ جھوٹ بولنا مومن کا شیوہ نہیں اور جس کے دل میں ایمان ہوتا ہے وہ جھوٹ بولنے سے کتراتا ہے کیونکہ اس میں رب الٰہی کی ناراضی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب انسان جھوٹ بولتا ہے تو فرشتے اس کے منہ کی بدبو سے 70 میل دور چلے جاتے ہیں ۔‘‘
اور ایک دوسری روایت میں فرمایا کہ: ’’بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور وہ اس میں اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ اللہ کے ہاں بھی جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
جو انسان جھوٹ کو اپنا لیتا ہے اس کا معاشرے میں کوئی وقار نہیں ہوتا، اپنے پرائے سب
[1] تفسیر القاسمی : 10/160