کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 88
آدمی کھڑا ہو کر بات کر رہا تھا، میں بھی ان کے پاس کھڑا ہوگیا، تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے میرے سینے میں دھکا دے کر کہا، جب تم دیکھو کہ دو آدمی باتیں کر رہے ہیں تو اجازت لیے بغیر ان کے پاس کھڑے مت ہو۔[1]
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپس میں گفتگو کرنے والے لوگ اگر اس کی اجازت طلب کرنے پر اسے اجازت دے بھی دیں مگر اس کو سمجھ آرہی ہو کہ انہوں نے یہ اجازت حیا کی وجہ سے یا بادل ناخواستہ دی ہے اور دل سے وہ اس کا سننا پسند نہیں کرتے تو اسے ان کی بات پر کان لگانا پھر بھی جائز نہیں ۔
بعض لوگ ذرا دور بیٹھ کر ایک آدھ لفظ سن کر باقی خود بخود سمجھ جاتے ہیں اس طرح کرنے والے بھی اس وعید میں شامل ہیں اس طرح کسی کے گھر جھناکنا سونگھنا ٹوہ لگانا بھی حرام ہے۔
ہاں اگر کسی پختہ ذریعے سے معلوم ہو کہ یہ لوگ کسی گناہ یا ظلم کے منصوبے بنا رہے ہیں تو نہی عن المنکر کے لیے بات سننا جائز ہے۔
[1] مسند احمد۔