کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 87
افواہ حدیث کی نظر میں
ان لوگوں کی بات پر کان لگانے کی سزا جو اسے پسند نہیں کرتے:
((وعن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما قال۔ قال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم من تسمع حدیث قوم وہم لہ کارہون صب فی اذنیہ الاذک یوم القیامہ یعنی الرصاص۔… اخرجہ البخاری)) [1]
’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی قوم کی باتوں پر کان لگائے اور وہ اسے ناپسند کرتے ہوں اس کے کانوں میں قیامت کے دن سیسہ (سکہ) ڈالا جائے گا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘
فوائد:… کسی کی باہمی بات چیت پر کان لگانا ان کے ناپسند کی صورت میں حرام ہے، اسے حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ آپس میں کوئی بات کر رہے ہوں اگر کسی شخص کا سننا پسند نہیں کرتے تو اسے ان کی بات پر کان لگانا حرام ہے کیونکہ صرف مکروہ کام پر اتنی سخت سزا نہیں ہو سکتی کہ کانوں میں سکہ ڈالا جائے۔
اب یہ پتہ کیسے چلے گا کہ وہ اس کا سننا پسند نہیں کرتے بعض اوقات وہ اپنی ناگواری کا صاف اظہار بھی کر دیتے ہیں ۔ اب قرائن سے یا صاف لفظوں میں ان کی ناگواری معلوم ہو جانے کے بعد کوئی شخص چھپ کر یا کسی طریقے سے سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے کانوں میں سکہ ڈالا جائے گا۔ کیونکہ یہ گناہ کان کے ذریعے سرزد ہوا ہے۔
سعید مقبری فرماتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس سے گزرا تو ان کے پاس ایک
[1] بخاری: 8042، کتاب التعبیر باب من کذب فی حملہ۔ بلوغ المرام کے نسخوں میں (من تسمع) کے لفظ ہیں جبکہ بخاری میں استمع کے لفظ ہیں معنی تقریباً ایک ہی ہے۔