کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 85
صحابہ رضی اللہ عنہم سے جانبازی کی بیعت لی۔[1] اس بیعت کو تاریخ اسلام میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور بیت ضروان کے نام سے مشہور ہے، بیعت کے بعد معلوم ہوا کہ قتل کی خبر غلط تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ: 40 ہجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حادثہ عظمیٰ پیش ایا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ نہرواں کے معرکہ میں خارجیوں کو سخت نقصان پہنچا تھا، اس لیے اس جماعت کے تین آدمیوں عبدالرحمن بن ملجم، برک بن عبداللہ اور عمرو ابن بکر نے باہم مشورہ کیا کہ نہرواں کے مقتولین کے بعد زندگی بے کار ہے۔ معاویہ اور علی رضی اللہ عنہما دونوں میں سے کوئی بھی حکومت کا اہل نہیں ۔ ان کی خانہ جنگی کی وجہ سے خلق اللہ مصیبت میں مبتلا ہے۔ بغیر انہیں ختم کیے ہوئے امن وسکون قائم نہیں ہو سکتا، چنانچہ ابن ملجم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برک بن عبداللہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اور عمرو ابن بکر نے عمروا بن العاص رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا بیڑا اٹھایا ابن ملجم نے اپنے کام میں ایک اور شخص شیب بن بجرہ اشجعی کو بھی شریک کر لیا اور تینوں نے ایک ہی دن رمضان 40 ہجری کو نماز فجر کے وقت تینوں بزرگوں پر حملہ کیا، اتفاق سے عمروا بن العاص رضی اللہ عنہ کے بجائے اس دن ایک اور شخص نماز پڑھانے کے لیے آیا تھا، ان کے دھوکے میں وہ مارا گیا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اوچھا وار لگا اس لیے وہ علاج معالجہ سے بچ گئے، ابن ملجم اور شبیب ابن بجرہ دونوں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گزرگاہ پر چھپ رہے، جیسے ہی آپ فجر کی نماز کے لیے نکلے تو دونوں نے حملہ کر دیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھاری زخم آیا، آپ نے آواز دی لوگ دوڑ پڑے، شبیب تو نکل گیا لیکن ابن ملجم گرفتار ہوگیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بجائے جعدہ بن ہیبرہ نے نماز پڑھائی، نماز کے بعد ابن ملجم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا، اس سے چند سوالات کرنے کے بعد آپ نے حکم دیا
[1] بخاری، کتاب الشروط والمصالحہ اہل العرب میں ان واقعات کی پوری تفصیل ہے۔