کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 82
ان حالات میں جھوٹ کا استعمال بوقت مجبوری: اس بارے میں علامہ غزالی نے لکھا جب جنگ اور باہمی اصلاح میں بات جھوٹ کے بغیر نہ بنے تب جھوٹ جائز ہے لیکن جہاں تک ممکن ہو (ان حالات میں بھی) جھوٹ سے بچنا چاہیے۔ کیونکہ جب کوئی شخص جھوٹ کا دروازہ اپنے لیے کھول لیتا ہے تو اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ پھر حاجت اور ضرورت کے بغیر بھی وہ جھوٹ کی طرف آئے گا۔[1] علامہ قرطبی تحریر کرتے ہیں : ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کا جھوٹ حرام ہے ان تین صورتوں کے علاوہ جھوٹ کے کوئی شکل جائز نہیں اور ان صورتوں میں (بھی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالح کے حاصل ہونے اور مفاسد کے دور ہونے کی بنا پر جھوٹ کی اجازت دی ہے اور بہترین بات یہ ہے کہ وہ ان تین صورتوں میں بھی جہاں تک ممکن ہو جھوٹ نہ بولے اور جب ممکن نہ ہو تو پھر رخصت پر عمل کرے۔[2] اضطراری حالت میں جھوٹ کے جواز پر اتفاق: اضطراری حالت میں جھوٹ بولنے کے جائز ہونے کے بارے میں اہل علم نے اجماع امت نقل کیا ہے مثال کے طور پر قاضی عیاض نے تحریر کیا ہے: اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی شخص کے ہاں ایک آدمی چھپا ہوا ہو اور کوئی ظالم اس کو ناحق قتل کرنا چاہے تو اس شخص پر واجب ہے کہ وہ اس کے بارے میں جھوٹ بولتے ہوئے لا علمی ظاہر کرے۔[3] حافظ ابن حجر کہتے ہیں : اضطراری حالت جھوٹ بولنے کے جواز پر اتفاق ہے جیسے کہ ایک ظالم آدمی کسی آدمی کو ناحق قتل کرنا چاہے اور وہ شخص کسی دوسرے آدمی کے پاس چھپا ہوا ہو تو اس کے لیے اس کے اپنے پاس ہونے کی نفی کرنا درست ہے اور اس پر قسم بھی کھائے تو
[1] ملاحظہ ہو: احیاء علوم الدین: 137/3۔ [2] المفہم: 592/6۔ [3] شرح النووی: 158/16۔