کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 81
والکذب فی الحرب والکذب لیصلح بین الناس۔))[1] ’’تین (حالات) کے علاوہ جھوٹ جائز نہیں آدمی اپنی بیوی کو خوش کرنے کی خاطر بات کرے جنگ میں جھوٹ اور لوگوں کے درمیان اصلاح کی خاطر جھوٹ۔‘‘ ان حالات میں جائز (جھوٹ) سے مراد: امام خطابی تحریر کرتے ہیں : دو (اشخاص) کے درمیان اصلاح کرنے کے وقت جھوٹ سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص کی طرف سے دوسرے تک خیر کی بات پہنچائے عمدہ خبر سنائے اگرچہ اس نے وہ خبر سنی نہ ہو اور اس سے مقصود اصلاح ہو۔ جنگ میں جھوٹ یہ ہے کہ اپنی قوت کا اظہار کرے ایسی گفتگو کرے کہ اس کے ساتھیوں کے لیے باعث تقویت ہو اور دشمن کو مغالطے میں ڈالے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنگ دھوکا ہے۔[2] اور آدمی کا اپنی بیوی سے جھوٹ یہ ہے کہ اس سے اچھے اچھے وعدے کرے اور اپنے دل میں اس کے لیے موجود محبت سے زیادہ اظہار کرے تاکہ دونوں میں رفاقت دائمی ہو اور اس کے ساتھ بیوی کے معاملہ کی اصلاح ہو جائے۔[3] علامہ ابن الملک نے لکھا ہے کہ جنگ میں جھوٹ یہ ہے کہ وہ مثال کے طور پر کہے لشکر اسلام کثیر تعداد میں ہے، انہیں بہت مدد پہنچ چکی ہے یا یہ کہے پیچھے دیکھ کر فلاں شخص تجھے پیچھے سے مارنے کے لیے آچکا ہے۔[4] انہوں نے میاں بیوی کے درمیان بولے جانے والے جھوٹ کے بارے میں تحریر کیا ہے جیسے یہ کہے مجھے آپ سے زیادہ کوئی عزیز نہیں ۔[5]
[1] ترمذی: 2003۔ [2] بخاری: 3039۔ [3] شرح الطیبی: 10 / 3211۔ [4] مرقاۃ المفاتیح: 766/8۔ [5] المرجع السابق: 766/8۔