کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 80
جھوٹ کے چند مثبت پہلو قارئین کرام! آپ نے ہمارا پورا مبحث ملاحظہ فرمایا کہ جھوٹ بولنا اور جھوٹی افواہ اڑانا ایک انتہائی قبیح فعل ہے۔ جس سے بندے کی دنیا وآخرت تباہ و برباد ہو جاتی ہے اور معاشرے میں کئی فتنے جنم لیتے ہیں ۔ مگر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جھوٹ کے چند مثبت پہلو بھی ہیں ؟ جی ہاں ! بوقت ضرورت چند مقامات پر صاحب شریعت نے ہمیں جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے۔ ضروری سمجھا گیا ہے کہ اس مبحث کے آخر میں اختصار کے ساتھ ان کی وضاحت بھی کی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں سیدہ ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس فیمنی خیرا او یقول خیرا۔))[1] ’’وہ جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرواتے ہوئے اچھی بات نقل کرتا ہے یا خیر کی بات کرتا ہے۔‘‘ اسی طرح چند دیگر حالات کا ذکر سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کی اس روایت میں موجود ہے جسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((لا یحل الکذب الا فی ثلاث یحدث الرجل امراتہ لیرضیہا
[1] بخاری: 2692۔ مسلم: 2605۔