کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 75
کے چھٹ جانے کا وقت آچکا ہے۔ نماز فجر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ الٰہی میں ہماری توبہ کی قبولیت کا اعلان فرمایا: تو لوگ ہمیں بشارت دینے کے لیے آنا شروع ہوئے، میرے دونوں ساتھیوں کی طرف (بھی) خوشخبری سنانے والے گئے، ایک شخص نے اپنے گھوڑوں کو میری طرف سرپٹ دوڑانا، بنو اسلم قبیلہ کے ایک شخص نے پہاڑ پر چڑھ کر آواز دی اور آواز (مجھ تک پہنچنے میں ) گھوڑ سے زیادہ تیز تھی۔ جب یہ صاحب آواز مجھے خوش خبری دینے آئے تو میں ان کے بشارت سنانے کی خوشی میں اپنے دونوں کپڑے اتار کر انہیں پہنا دئیے اور اللہ تعالیٰ کی قسم! اس دن میرے پاس ان کے سوا کوئی اور چیز نہ تھی، پھر میں نے دو کپڑے مانگ کر پہن لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کی خاطر روانہ ہوا۔ لوگ جوق در جوق مجھ سے ملاقات کرتے جاتے اور قبولیت توبہ کی مبارکباد دیتے وہ کہہ رہے تھے بارگاہ الٰہی میں توبہ کی قبولیت مبارک ہو۔ حضرت کعب نے (مزید) بیان کیا، یہاں تک کہ میں مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشڈریف فرما تھے، آپ کے گرد وپیش لوگ تھے، جب میں نے سلام عرض کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور آپ کا چہرہ خوشی اور مسرت سے دمک رہا تھا۔ ((ابشر بخیر یوم مر علیک منذ ولدتک امک۔)) ’’اس دن کی تمہیں بشارت ہو جو کہ تمہاری ماں کے تمہیں جنم دینے سے لے کر آج تک کے تمام دنوں سے تمہارے لیے بہترین ہیں ۔‘‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: ((امن عندک یا رسول اللہ صلي الله عليه وسلم ام من عند اللہ۔)) ’’یا رسول اللہ! کیا یہ بشارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی جانب سے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: