کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 74
ایک خط دیا، جس میں تھا: امابعد! بلا شبہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے صاحب یعنی (رسول اللہ) نے تم پر زیادتی کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت اور ضائع ہونے کی جگہ میں نہیں رکھا (یعنی ایسی جگہ رہنے کا پابند نہیں فرمایا) آپ ہمارے پاس تشریف لے آئیے ہم آپ کے ساتھ تعاون کریں گے، جب میں نے اس کو پڑھا تو میں نے کہا یہ بھی امتحان ہی کا حصہ ہے میں اس کو لے کر تنور کی طرف گیا اور اسے جلا دیا۔ جب ان پچاس دنوں میں سے چالیس دن گزرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قاصد میرے پاس آیا اور کہنے لگا بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں حکم دیا کہ تم اپنی بیوی سے علیحدہ ہو جاؤ۔ میں نے دریافت کیا، کیا میں اس کو طلاق دے دوں یا مجھے کیا کرنا ہے؟ اس (قاصد) نے کہا نہیں صرف اس سے جدا ہو جاؤ اور اس کے قریب نہیں جانا۔ میں نے اپنی اہلیہ سے کہا اپنے میکے چلی جاؤ اور اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کرنے تک وہیں رہو۔ اس طرح دس راتیں اور گزر گئیں اور جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے گفتگو کی ممانعت فرمائی تھی، اس کی پچاس راتیں پوری ہوگئیں پچاسویں رات کی صبح کو جب میں نماز فجر پڑھ چکا اور میں اپنے گھروں میں سے ایک گھر کی چھت پر اس حالت میں بیٹھا تھا کہ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرا دم گھٹا جا رہا تھا اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود مجھ پر تنگ ہو چکی تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو جبل سلع پر چڑھ کر بآواز بلند کہہ رہا تھا: ((یا کعب بن مالک ابشر۔)) ’’اے کعب بن مالک! تجھے بشارت ہو۔‘‘ انہوں نے بیان کیا: (یہ سنتے ہی) میں سجدے میں گر پڑا اور مجھے یقین ہوگیا کہ مصیبت