کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 73
میرے دو ساتھیوں نے تو ہمت ہار دی، اور وہ اپنے گھروں میں بیٹھے روتے رہے، میں تینوں میں سے نسبتاً جوان اور طاقت ور تھا میں باہر نکلتا اور مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا اور بازاروں میں گھومتا (لیکن) مجھ سے کوئی گفتگو نہ کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد اپنی مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو میں سلام عرض کرنے کے بعد اپنے دل میں کہتا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سلام کا جواب دینے کی خاطر اپنے لبوں کو حرکت دی ہے یا نہیں ؟ پھر میں آپ کے قریب ہی نماز پڑھنے لگ جاتا اور آپ کو کنکھیوں سے دیکھتا رہتا، جب میں نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف توجہ فرماتے اور جب میں آپ کی طرف دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رخ مبارک کو پھیر لیتے۔ آخر جب لوگوں کو یہ بے رخی دراز ہوتی گئی تو میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی طرف گیا اور اس کی دیوار پر چڑھ گیا۔ وہ میرے چچا زاد بھائی اور لوگوں میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارے تھے، میں نے انہیں سلام کیا۔ اللہ کی قسم! اس نے میرے سلام کا جواب (تک) نہ دیا۔ میں نے کہا: اے ابوقتادہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں میرے بارے میں اس بات کا علم ہے کہ میں اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں ۔ وہ چپ رہے میں نے اپنا سوال دہرایا اور انہیں قسم دے کر دریافت کیا لیکن وہ (پھر بھی) خاموش رہے، میں نے پھر سوال دہرایا، انہیں قسم دے کر پوچھا تو انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول زیادہ جانتے ہیں ۔ میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے میں واپس چلا آیا اور دیوار پر چڑھ کر (باہر آگیا)۔ انہوں نے (مزید) بیان کیا، میں مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا کہ شام کا ایک کاشت کار جو غلہ بیچنے مدینہ آیا تھا کہہ رہا تھا کعب بن مالک تک پہنچانے میں میری راہنمائی کون کرے گا؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کرنا شروع کیا تو وہ میری طرف آیا اور مجھے شاہ غسان کا