کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 72
قسم! آپ سے پیچھے رہتے وقت میں اس قدر قوی اور آسودہ حال تھا کہ اس سے پہلے کبھی ایسے نہیں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اما ہذا فقد صدق قم حتی یقضی اللّٰہ فیک۔)) ’’اس نے یقینا سچی بات بتلائی ہے سو اٹھ جاؤ، یہاں تک کہ تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ (خود ہی) فیصلہ فرما دیں ۔‘‘ میں اٹھا اور میرے پیچھے بنو سلمہ کے کچھ لوگ دوڑے ہوئے آئے اور مجھ سے کہنے لگے: ہمارے علم کے مطابق تم نے اس سے پہلے کوئی گناہ نہیں کیا، تم نے بڑی کوتاہی کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کوئی عذر پیش نہیں کیا، جیسا کہ پیچھے رہنے والے (دیگر) لوگوں نے بیان کیا ہے۔ تمہارے گناہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار ہی کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم ان لوگوں نے مجھے اتنا ملامت کیا کہ میں نے واپس پلٹ کر اپنی تکذیب کا ارادہ کر لیا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے سبقہ بیان کی تکذیب کر کے جھوٹا عذر پیش کر دوں ) پھر میں نے ان سے دریافت کیا کیا کسی اور کو بھی میری والی صورت حال پیش آئی ہے؟ انہوں نے بتایا ہاں دو اشخاص نے وہی بات کہی ہے جو تم نے کہی ہے اور ان سے وہی کہا گیا ہے جو تم سے کہا گیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا: مرارہ بن ربیع المعمری اور ہلال بن امیہ واقفی رضی اللہ عنہما ۔ انہوں نے میرے لیے دو ایسے اشخاص کا ذکر کیا جو کہ غزوئہ بدر میں شریک ہوئے تھے اور میرے لیے ان میں نمونہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے رہنے والوں میں سے ہم تین کے ساتھ گفتگو سے منع فرما دیا، لوگ ہم سے دور ہوگئے اور وہ ہمارے ساتھ اس قدر بدل گئے یہاں تک کہ میں نے زمین کو بھی اپنے لیے مختلف پایا، زمین وہ نہ رہی تھی جس سے میں آشنا تھا ہم اس حالت میں پچاس روز رہے۔