کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 71
جب مجھ سے یہ ذکر کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ طیبہ کے) قریب آچکے ہیں تو غلط خیالات میرے ذہن سے نکل گئے اور مجھے یقین ہوگیا کہ میں اپنے آپ کو کسی ایسی چیز کے ذریعہ سے نہیں بچا سکتا۔ جس میں جھوٹ ہو۔ چنانچہ میں نے سچی بات کا پختہ عزم کر لیا، صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد تشریف لاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے پھر لوگوں کے لیے تشریف فرما ہوتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (حسب عادت) ایسا کر چکے تو پیچھے رہنے والے لوگ آکر قسمیں کھا کھا کر اپنے عذر بیان کرنے لگے ایسے لوگوں کی تعداد اسی (80) سے کچھ اوپر تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہر کو قبول فرمایا، ان سے عہد لیا ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی اور ان کے باطن کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا۔ ان کے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو حاضر ہوا میں نے سلام عرض کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور آپ کی مسکراہٹ میں ناراضی تھی۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آؤ (یعنی قریب ہو جاؤ) میں چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما خلفک؟ الم تکن قد اتبعت ظہرک، تمہیں کس چیز نے پیچھے رکھا؟ کیا تم نے اپنی سواری خرید نہ رکھی تھی؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں ۔ (یعنی میں نے سواری خرید رکھی تھی) اللہ تعالیٰ کی قسم اگر میں آپ کے سوا دنیا کے کسی اور شخص کے پاس بیٹھا ہوتا تو کوئی نہ کوئی عذر گھڑ کر اس کی خفگی سے بچ سکتا تھا مجھے بات بنانے کا سلیقہ دیا گیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قسم مجھے یقین ہے کہ اگر آج میں آپ کے سامنے کوئی جھوٹا عذر بیان کر کے آپ کو راضی کر لوں گا، تو یقینا اللہ تعالیٰ بہت جلد آپ کو مجھ سے ناراض کر دیں گے اور اگر میں نے آپ کے حضور سچی بات عرض کی، تو آپ کو مجھ پر خفگی ہوگی۔ لیکن ایسی بات کرتے ہوئے مجھے اللہ تعالیٰ سے معافی کی پوری امید ہے۔ نہیں اللہ تعالیٰ کی قسم! (پیچھے رہنے کے لیے) میرے پاس کوئی عذر نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی